اسلام آباد:سپریم کورٹ میں ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے سے متعلق رپورٹ جمع کرادی گئی جس میں بتایا گیا ہے کہ ان کا تبادلہ اثر و رسوخ کی بنیاد پر ہی کیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں ڈی پی او پاکپتن از خود نوٹس کیس کی سماعت کی،اس موقع پر پنجاب پولیس کے سینئر افسر خالق داد لک نے انکوائری رپورٹ عدالت میں پیش کردی جس میں بتایا گیا ہے کہ ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ اثر و رسوخ کی بنیاد پر ہی کیا گیا تھا،مانیکاخاندان کے معاملات میں مداخلت روکنے کیلئے دھمکی دی گئی،وزیراعلیٰ کیساتھ میٹنگ میں پرائیویٹ آدمی کاپایا جانا خلاف ورزی ہے،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی جی کلیم امام کاموقف تھاکہ شفاف انکوائری کیلئے تبادلہ کیا،اس بات سے شکوک وشبہات پیداہوتے ہیں،ڈی پی اوکوسبق سکھانے کیلئے آئی جی پردباؤتھا،آئی جی کلیم امام شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نکلے۔
ا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈی پی او کو پیغام دینا تضحیک آمیز تھا،یہ کہنا بھی تضحیک آمیز تھا کہ سب کا نقصان ہو گا،احسن جمیل گجر کے خلاف کارروائی قانونی معاملہ ہے،بادی النظر میں سب کا نقصان ہونا مبہم دھمکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق احسن جمیل گجر بچوں کے خود ساختہ گارڈین بنے،قانونی رائےکےبعداحسن جمیل کےخلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعلیٰ کے قریبی دوست احسن جمیل گجر سے متعلق کہا کہ کیوں نہ ان پر انسداد دہشت گردی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیےآج احسن اقبال جمیل معافی مانگ رہا ہے پہلے اس کی ٹون ہی اور تھی۔
یہ بھی ضرور پڑھیں :الیکشن کمیشن نے چپ سادھ رکھی ہے ،وفاقی وزیر غلام سرور خان اپنے بیٹے منصور حیات خان کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں، سابق ایم پی اے حاجی ملک عمر فاروق
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ملاقات کے بعد رضوان گوندل کا تبادلہ ہوا،ان حالات میں عدالت کیا نتیجہ اخذ کرے؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے پولیس کے کام میں مداخلت کے شواہد نہیں ہیں،وزیر اعلیٰ صوبے کا سربراہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اعتراض ہے کہ ڈی پی او اور آر پی او کے ساتھ اجنبی شخص نے گفتگو کی، وزیر اعلیٰ کے اقدام پر اعتراض نہیں، اجنبی شخص نے وزیر اعلیٰ کے سامنے ایسی گفتگو کی، آج احسن جمیل معافی مانگ رہے ہیں،کس بات کی معافی دیں۔
تبادلے کے بعد چارج چھوڑنے سے متعلق بھی وزیر اعلیٰ ہاؤس سے فون آیا، انکوائری افسر خالق داد لک نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس سے رات 11بجے کال کی گئی، وزیر اعلیٰ کے پی ایس او نے دیگر افسران سے بھی رابطے کیے، شواہد رضوان گوندل کے موقف کو درست قرار دے رہے ہیں،آر پی او ساہیوال نے انکوائری تک تبادلہ نہ کرنے کا کہا۔
عدالت نے حکم دیا کہ رپورٹ کی کاپی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور سابق آئی جی پنجاب کلیم امام کو دی جائے جب کہ عدالت نے وزیراعلیٰ سے تین روز میں معاملے پر جواب بھی مانگ لیا۔
یہ بھی ضرور پڑھیں :حکومت کاسی این جی 15روپے فی کلوتک مہنگی کرنے کا فیصلہ
چیف جسٹس نے انہیں جواب دیتے ہوئے کہا کہ کیا آپکو احسن جمیل معتبر نظر آئے؟ یہاں جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں، عدالت میں رونے کی ضرورت نہیں، آپ درمیان سے نکل جائیں،ہم نے اپنی انکوائری کر ا لی ہے۔
عدالت نےڈی پی او پاکپتن تبادلہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت ایک ہفتےکیلئےملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ ڈی پی او پاکپتن تبادلے سے متعلق اس وقت کے آئی جی پنجاب کلیم امام نے عدالت میں رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں کسی کو ذمہ دار قرار نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے سینئر پولیس افسر خالق داد لک کو انکوائری کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
واضح رہے وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا کو ناکے پر روکنے والے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) پاکپتن رضوان گوندل کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔


کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں