They are 100% FREE.

بدھ، 17 اکتوبر، 2018

زینب کو قاتل عمران کو پھانسی دے دی گئی


لاہور (تازہ ترین۔ 17 اکتوبر2018ء) زینب قتل کیس کے مجرم عمران کو پھانسی دے دی گئی۔ مجرم کو مجسٹریٹ کی موجودگی میں پھانسی دی گئی۔ تفصیلات کے مطابق زینب کے قاتل عمران خان کو بدھ صبح سویرے پھانسی دی گئی ہے۔ کوٹ لکھپتجیل میں مجسٹریٹ کی موجودگی میں مجرم عمران کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ مجرم کی نعش اہلخانہ کے حوالے کر دی گئی ہے۔ جس کے بعد مجرم کی نعش ایمبولینس میں کوٹ لکھپتجیل سے اہلخانہ کے ہمراہ روانہ کر دی گئی۔

مجرم عمران  کو مجسٹریٹ غلام سرور کی موجودگی میں آج (بدھ) صبح ساڑھے پانچ بجے تختہ دار پر لٹکایا گیا، سزا پر عملدرآمد کے وقت کمسن زینب کے والد محمد امین بھی پھانسی گھاٹ پر موجود تھے۔
اس موقع پر کوٹ لکھپت کے باہر سخت سیکورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔
پھانسی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے زینب کے والد نے کہا کہ وہ اپنی آنکھوں سے مجرم کا انجام دیکھ کر آرہے ہیں، آج انصاف کے تقاضے پورے ہوئے، مجرم کو سزا پر مطمئن ہوں۔
انہوں نے کہا کہ مجرم عمران بے خوف و خطر خود چل کر تختہ دار تک آیا، اُس کے چہرے پر زرہ برابر بھی ندامت کے آثار نہیں تھے۔

قبل ازیں کوٹ لکھپت جیل آمد پر زینب کے والد کا کہنا تھا کہ مجرم کو سرعام پھانسی دینی چاہیے تھی، اگر سرعام پھانسی نہیں دینی ہے تو اس قانون کو ہی ختم کردینا چاہئے۔

یاد رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے مجرم کو سرعام پھانسی دینے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ گزشتہ رو ز لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سردار شمیم احمد خان اور جسٹس شہباز علی رضوی پر مشتمل بینچ نے مجرم عمران کو سرعام پھانسی دینے سے متعلق زینب کے والد حاجی امین کی درخواست پر سماعت کی۔
درخواست میں سیکریٹری داخلہ، انسپکٹرل جنرل پولیس پنجاب اور مجرم عمران کو ان کیسز کی سماعت انسداددہشت گردی عدالت کے جج نے روزانہ کی بنیاد پر کوٹ لکھپت جیل میں کیفریق بنایا گیا تھا۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ مجرم عمران کی تمام اپیلیں مسترد ہوچکی ہیں اور مجرم کے ڈیتھ وارنٹ بھی جاری ہوچکے ہیں، لہذا انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے سیکشن 22 کے مجرم کو سرعام پھانسی دی جاسکتی ہے۔دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل اشتیاق چوہدری نے کہا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 22 کے تحت عوامی مقام پر پھانسی ہو سکتی ہے، اس پر عدالت نے کہا کہ آپ دفعہ 22پڑھیں، اس میں لکھا ہے یہ حکومت کا کام ہے اور ہم حکومت نہیں ہیں۔


عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے اس معاملے پر حکومت کو کوئی درخواست دی ہے، جس پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ جی حکومت کو درخواست دی ہے لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔انہوں نے بتایا کہ 20جون کو حکومت کو سر عام پھانسی دینے کے حوالے سے درخواست دی، حکومت نے اگر دفعہ 22 پر عملدرآمد نہیں کرنا تو اسے نکال دینا چاہیے۔اس پر عدالت نے کہا کہ جب پنجاب حکومت نے آپ کی درخواست پر کارروائی نہیں کی تو آپ نے عدالتسے پہلے رجوع کیوں نہیں کیا آپ اتنا تاخیر سے آئے ہیں،  (بدھ)کو تو پھانسی کی تاریخ مقرر ہے۔
اس دوران عدالت میں موجود سرکاری وکیل نے مجرم عمران کے ڈیتھ وارنٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت جیل قوانین 354 دیکھے، سرعام پھانسی دینا جیلقوانین کی خلاف ورزی ہوگی۔دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عدالت جیل میں پھانسی کے وقت کیمرے لے کر جانے کی اجازت اور مجرم کی پھانسی براہ راست دکھانے کی اجازت ہی دے دی، ہم سارا خرچ برداشت کرلیں گے۔
تاہم عدالت نے درخواست گزار کی استدعا مسترد کرتے ہوئے مجرم عمران کو سرعام پھانسی دینے کی درخواست مسترد کردی۔علاوہ ازیں انسداد دہشت گردیعدالت کی جانب سے قصور کی ننھی زینب سمیت دیگر بچیوں کے قاتل عمران کو مجموعی طور پر 21مرتبہ سزائے موت، عمر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔مجرم عمران علی کو پھانسی دینے کے لئے 17اکتوبر کے لئے دیتھ وارنٹ جاری کیے گئے تھے ۔


دوران تفتیش مجرم نے دل دہلا دینے والے انکشافات کیے۔ 24 سالہ عمران کے مطابق قصور کے ایک قحبہ خانے میں جانے اور غیراخلاقی فلمیں دیکھنے سے وحشت سوار ہو جاتی تھی، جس کے لئے وہ کم سن اور معصوم بچیوں کو ورغلا کر لے جاتا، پہلے زیادتی کا نشانہ بناتا اور پھر گلا دبا کر مار دیتا۔

 ۔گزشتہ روز مجرم عمران کی جیل میں اہل خانہ سے آخری ملاقات کروائی گئی ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں