They are 100% FREE.

اتوار، 30 ستمبر، 2018

آصف زرداری ہی نہیں بے نظیر بھی کرپٹ ترین لیڈر تھیں فاطمہ بھٹو کی ایسی کتا ب سامنے آگئی کہ سیاسی میدان میں ہلچل مچ گئی


لاہور : مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو نے اپنی پھوپھی بینظیر بھٹو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے والد کے قتل کا مقصد خاندان کے اصل وارث کو راہ سے ہٹانا تھا، انہوں نے کہا آصف زرداری کی کرپشن میں ان کی پھوپھی بھی برابر کی شریک تھیں، فاطمہ بھٹو نے اپنی کتاب میں اپنے والد، دادا، پھوپھی کے علاوہ خاندانی معاملات پر بہت کچھ لکھا ہے۔روزنامہ خبریں کے مطابق کتاب SONGS OF BLOOD AND AWORD (لہو اور تلوار کے گیت) میں انہوں نے اپنے والد، ان کے معاشقے کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھا ہے اور والد کو دہشتگردی کے الزامات سے بری الذمہ قرار دلوانے کی کوشش کی ہے، 

فاطمہ بھٹو نے کتاب کے آغاز سے لے کر آخر تک انہوں نے بینظیر بھٹو کو ایک چال باز اور گھناؤنی شخصیت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ فاطمہ بھٹو چودہ برس کی تھیں جب بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کے والد کو کراچی میں ان کے گھر کے باہر ہلاک کردیا گیا۔ فاطمہ بھٹو کا الزام ہے کہ ان کے والد کے قتل کا مقصد دراصل بھٹو خاندان کے اصلی جانشین کو راہ سے ہٹانا تھا۔ ان کی پھوپھی بینظیر بھٹو جسے وہ ’وڈی بوا‘ کہتی ہیں، بچپن سے ہی ان کے والد میر مرتضیٰ پر غلبہ پانے اور بھٹو خاندان کی سیاسی وارث بننے کی کوشش کرتی رہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے کراچی میں ’آپریشن کلین اپ‘ کے نام پر قتل عام کیا۔ آصف زرداری کی ’کرپشن‘ ان کا انفرادی فعل نہیں ہے۔ فاطمہ بھٹو اپنے والد کی ہلاکت کے واقع سے پہلے یہ ثابت کرنے ی کوشش کرتی ہیں کہ وہ بطور ’ممبر پارلیمنٹ‘ حق رکھتے تھے کہ جب چاہیں کسی بھی تھانے میں جاکر وہاں مقید لوگوں کو رہا کراسکیں۔ مرتضیٰ بھٹو لاڑکانہ سے صوبائی اسمبلی کے ممبر تھے۔ فاطمہ بھٹو نہ چاہتے ہوئے بھی تاثر پیدا کررہی ہیں کہ مرتضیٰ بھٹو اپنے باڈی گارڈوں کی فوج کے ہمراہ کراچی شہر میں دندناتے پھرتے تھے۔ حکومتِ وقت کا بھی یہی موقف تھا کہ سکیورٹی اداروں نے مرتضیٰ بھٹو کو ان کے باڈی گارڈوں کے حصار سے نکالنے کی کوشش کی تھی۔ فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ انہیں اپنے والد کی موت کی خبر کی تصدیق پرائم منسٹر ہاؤس سے ہوئی جہاں سے انہوں نے اپنی پھوپھی کو فون کیا لیکن ان کے شوہر آصف زرداری نے یہ کہہ کر بینظیر بھٹو سے بات کرانے سے انکار کردیا کہ وہ بھائی کی موت کا سن کر ہیجان کی کیفیت میں ہے۔ 

اپنے خاندان کے بارے میں لکھتے ہوئے فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ ان کے دادا ذوالفقار علی بھٹو جب بیرون ملک سے تعلیم حاصل کرکے پاکستان لوٹے تو انہیں ایک نئی دلہن کی سوجھی اور اسی دوران ان کی ملاقات ممبئی کی ایک ایرانی نژاد صابن بیچنے والے ’صبونچیے‘ کی خوبصورت بیٹی نصرت سے ہوئی جس کی وساطت سے وہ سکندر مرزا تک پہنچ گئے اور پھر حکومت میں شامل ہوگئے۔کتاب کا ایک بڑا حصہ فاطمہ بھٹو نے اپنے والد کی گرل فرینڈ ڈیلا رونک پر صرف کردیا ہے۔ مرتضیٰ بھٹو کو اپنے والد کی پھانسی کی خبر بھی اس وقت ملی جب وہ ڈیلا کے ہمراہ تھے۔ فاطمہ بھٹو اپنی خاندانی جاگیر کا فخریہ انداز میں ذکر کرنے کے فوراً بعد معذرت خواہانہ رویہ اپنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ ان کے والد مرتضیٰ بھٹو جاگیردارانہ سوچ نہیں رکھتے تھے کیونکہ ان کی پرورش لاڑکانہ میں نہیں بلکہ راولپنڈی میں ہوئی تھی۔ فاطمہ لکھتی ہیں کہ مرتضیٰ بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کو رہا کرانے کیلئے لندن سے پرامن جدوجہد کررہے تھے کہ انہیں اچانک والد کی طرف سے ایک خط ملا جس میں انہیں ہدایت کی گئی کہ اگر انہیں ہلاک کردیا گیا تو دونوں بھائی مسلح جدوجہد شروع کردیں۔فاطمہ بھٹو کے بقول اس خط میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے بیٹوں کو کہا کہ ’اگر تم بھائیوں نے میرا بدلہ نہ لیا تو میں سمجھوں گا کہ تم میری اولاد نہیں ہو۔‘ فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ انہوں نے یہ خط خود نہیں پڑھا اور نہ ہی ان کے والد نے ان کو اس بارے میں بتایا بلکہ انہیں اس خط کا علم اپنے والد کی یونانی گرل فرینڈ ڈیلارونک سے ہوا۔ وہ لکھتی ہیں کہ ڈیلا یونانی جنرل روفوگالس کی بیوی تھی۔ جنرل کی حراست کے دوران وہ مرتضیٰ بھٹو کی دوست بن گئیں اور دوست بھی اتنی قریبی کے مرتضیٰ بھٹو ڈیلا کے بعد نہیں رہ سکتے تھے۔

 فاطمہ بھٹو اپنی افغان ماں فوزیہ اور ان کی بہن ریحانہ سے اپنے باپ اور چچا شاہنواز کی دوستی کا بھی تفصیلی ذکر کرتی ہیں۔ جب وہ کتاب لکھ رہی تھیں تو وہ فرانس میں اس وکیل سے ملیں جس نے شاہنواز بھٹو کے قتل کا مقدمہ لڑا تھا۔ فاطمہ کہتی ہیں کہ اس وقت ان کا بدن کانپنے لگا جب 80 سالہ وکیل ڑاک ور جس نے انہیں بتایا کہ بینظیر بھٹو نے شاہنواز بھٹو کے قتل کو دبانے کے لئے دباؤ ڈالا ورنہ میر مرتضیٰ اس کو سکینڈل بنانا چاہتے تھے۔ فاطمہ بھٹو کے خیال میں بینظیر بھٹو سی آئی اے اور پاکستانی سٹیبلشمنٹ کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ ان کے والد یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ شاہنواز بھٹو نے خود کشی کی ہے کیونکہ وہ ایک کامیاب، دلیر اور معاشی طور پر آسودہ شخص تھا۔ 

فاطمہ بھٹو کا کہنا ہے کہ ان کے والد آصف زرداری کو ہمیشہ ’چور‘ کہتے تھے۔ وہ لکھتی ہیں کہ آصف علی زرداری نے میر مرتضیٰ بھٹو سے اپنی دوسری ملاقات کے دوران ان کو رشوت کی ترغیب دی اور کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ایک ’ڈیل‘ کررہے ہیں اور اگر مرتضیٰ چاہیں تو وہ ان کو بھی حصہ دار بناسکتے ہیں۔ میرے باپ نے آصف زرداری کو جواب دیا ’زرداری بھٹو ایسا نہیں کرتے‘ فاطمہ کا دعویٰ ہے کہ آصف علی زرداری کی کرپشن اس کا انفرادی فعل نہیں تھا بلکہ ان کی ’وڈی بوا ‘ بھی مکمل شریک تھیں۔ پیپلزپارٹی کے ایک سابق سیکرٹری جنرل ڈاکٹر غلام حسین کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ جب انہوں نے بینظیر بھٹو کو آصف علی زرداری کی کرپشن کے بارے میں آگاہ کرنا چاہا تو جواب ملا ’ڈاکٹر صاحب ہمارا جن سے مقابلہ ہے ان کے پاس ٹنوں کے حساب سے پیسہ ہے۔‘ 
وہ لکھتی ہیں کہ بینظیر بھٹو شاید شریف خاندان کا مقابلہ کرنے کے لئے دولت اکٹھی کررہی تھیں۔ فاطمہ بھٹو کو یہ بھی شکایت ہے کہ جب ان کے والد نے شام سے واپس پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تو صدر حافظ الاسد نے انہیں اپنے خصوصی طیارے کے ذریعے پاکستان بھیجنے کی پیشکش کی لیکن ان کی ’وڈی بوا‘ کی حکومت نے صدر اسد کے طیارے کو پاکستانی حدود میں داخل ہونے سے روک دیا۔ فاطمہ بھٹو کی بینظیر بھٹو سے نفرت اس وقت انتہا پر نظر آتی ہے جب وہ اپنے چچا شاہنواز بھٹو کی ہلاکت کا ذکر کرتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ اس وقت ان کی عمر صرف تین برس تھی اور وہ دمشق سے اپنے والدین کے ہمراہ فرانس کے شہر وینس میں شاہنواز بھٹو کے ہاں ٹھہری ہوئی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھائے جانے کے بعد سارا بھٹو خاندان فرانس میں اکٹھا ہوا تھا۔ وہ لکھتی ہیں کہ جب بھٹو خاندان ساحل سمندر پر باربی کیو کے بعد رات گیارہ بجے فلیٹ پر پہنچا تو شاہنواز بھٹو اور ان کی افغان بیوی ریحانہ میں کشیدگی عروج کو پہنچ چکی تھی۔ ریحانہ کی ناراضی اتنی بڑھی کہ اس نے مرتضیٰ بھٹو اور اس کے خاندان کو فوراً فلیٹ سے نکل جانے کا مطالبہ کیا اور فلیٹ سے نکال کر دم لیا۔ اسی رات شاہنواز بھٹو وفات پاگئے۔ فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ شاہنواز بھٹو کے پاس ایسی پینٹراکس زہر بھی موجود تھی جو انہیں مسلح جدوجہد کی تربیت دینے والوں نے دی تھی تاکہ وہ جنرل ضیاءالحق کے چنگل میں جانے کی ذلت سے بچنے کے لئے خود کو ہلاک کرلیں۔ 

فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ جب بینظیر بھٹو ن ے 1988ءمیں وطن واپسی کا فیصلہ کیا تو اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے ضیاءالحق کو یہ کہہ کر مطمئن کردیا کہ وہ حکومت کے لئے نہیں بلکہ ایم آر ڈی کے لئے خطرہ ہوں گی۔ فاطمہ بھٹو بتاتی ہیں کہ ان کے والد کو شام اور لیبیا سے کتنے ہتھیار ملے اور ایک ایسا موقع بھی تھا کہ جب ان کے والد اسلحہ سے بھرا ہوا جہاز لے کر کابل پہنچے۔ وہ لکھتی ہیں کہ دبئی کے بادشاہ شیخ زید بن سلطان النہیان نے ان کے والد کو مسلح جدوجہد کرنے سے منع کیا اور صرف 10ہزار ڈالر کی امداد کی۔ ان کے والد شیخ زید بن سلطان کی رقم کو اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے تھے اسی لئے اس رقم سے اپنی گرل فرینڈ ڈیلارونک کے لئے رولیکس گھڑی کا تحفہ خرید لیا۔ الذوالفقار نامی تنظیم کی طرف سے پی آئی اے کا طیارہ اغوا کرنے کے بارے میں کہتی ہیں کہ سلام اللہ ٹیپو ہمیشہ سے مشکوک تھے اور وہ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ کابل میں الذوالفقار کے تربیتی کیمپ میں مرتضیٰ بھٹو سے مل چکے تھے۔ فاطمہ بھٹولکھتی ہیں کہ سلام اللہ ٹیپو نے دو مرتبہ پی آئی اے کا طیارہ اغوا کرنے کی تجویز پیش کی لیکن ان کے والد نے ہر بار یہ تجویز مسترد کردی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے والد کو پی آئی اے کے طیارے کے اغوا کا پتہ اس وقت چلا جب انہیں کابل ہوائی اڈے کے ائیرکنٹرول ٹریفک سے کال موصول ہوئی۔ وہ لکھتی ہیں کہ طیارہ اغوا کرنے کا فیصلہ ان کے والد کا نہیں بلکہ سلام اللہ ٹیپو کا ذاتی تھا۔ فاطمہ بھٹو طیارے کے اغوا سے پیدا ہونے والی مشکلات کا الزام بھی بینظیر بھٹو کو دہتی ہیں جنہوں نے طیارے کے اغوا کی خبر پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ ’ہمارے لوگوں نے یہ کارنامہ کردکھایا ہے۔‘ فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ انہوں نے جب بھی ’وڈی بوا‘ کے دوستوں سے طیارے کے اغوا کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی تو جواب ملا ’نہیں نہیں بینظیر تو ہمیشہ پرامن سیاسی جہدوجہد پر یقین رکھتی تھیں۔‘ یہ بتائے بغیر کہ وہ بینظیر بھٹو کی کس دوست سے ملیں وہ اپنا فیصلہ دیتی ہیں کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ جب ان کے والد واپس پاکستان پہنچ گئے اور انہیں تمام الزامات سے باعزت بری کردیا گیا تب بھی ان کی پھوپھی انہیں جیل سے رہا نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ فوج کی طرف سے مرتضیٰ بھٹو کو ’ہیرو‘
نہ بنانے کے مشورے پر رہا کیا گیا۔ فاطمہ بھٹو جب اپنے باپ کی موت کا احوال بیان کرتی ہیں تو اس وقت ان کا انداز بیان زوردار اور جذباتی ہوجاتا ہے اور وہ بتاتی ہیں کہ سترکلفٹن کے باہر جب ان کے والد کے قافلے پر پولیس نے حملہ کیا تو وہ زخمی ضرور ہوئے لیکن ہلاک نہیں ہوئے اور پولیس نے ان کو اپنی ایک گاڑی میں ڈال کر گولی ماری اور پھر کراچی کے مڈ ایسٹ ہسپتال کے دروازے پر پھینک دیا۔ وہ لکھتی ہیں کہ مڈ ایسٹ ہسپتال میں ایمرجنسی کے کیسز سے نمٹنے کا تجربہ تھا نہ ہی یقین تھا۔ فاطمہ بھٹو نے پاکستان کے سابق صدر فاروق احمد لغاری کے حوالے سے لکھا ہے کہ آصف زرداری نے انہیں کہا تھا کہ اس ملک میں یا میں رہ سکتا ہوں یا مرتضیٰ بھٹو۔ کتاب میں فاطمہ بھٹو اپنی زندہ پھوپھی صنم بھٹو کا صرف ایک بارہلکا سا ذکر کرتی ہیں اور بینظیر بھٹو کی اولاد کا وہ سرے سے نام لینا بھی پسند نہیں کرتیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں