They are 100% FREE.

بدھ، 3 اکتوبر، 2018

وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کو نااہل قرار دے دیے جانے کا امکان


ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں آرٹیکل 62 ون ایف کی گونج، قانونی ماہرین نے وزیراعلی کیلئے خطرہ قرار دے دیا


وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کو نااہل قرار دے دیے جانے کا امکان، ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹمیں آرٹیکل 62 ون ایف کی گونج، قانونی ماہرین نے وزیراعلی کیلئے خطرہ قرار دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کو نااہل قرار دے دیے جانے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
بدھ کے روز سپریم کورٹ میں ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل تبادلے سے متعلق کیس کیسماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آرٹیکل باسٹھ ون ایف بار بار پڑھیں، ہر آدمی کو معافی نہیں مل سکتی، کیا ہم معافی دیتے رہیں گے۔ اس حوالے سے قانونی ماہرین کی جانب سے رائے دیتے ہوئے وزیراعلی پنجاب کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی گئی ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے آرٹیکل باسٹھ ون ایف پر سختی سے عمل کروایا تو پھر وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
اگر عدالت سمجھتی ہے کہ وزیراعلی نے عدالت میں غلط بیانی کی ہے تو پھر ان پر آرٹیکل باسٹھ ون ایف کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ بدھ کو چیف جسٹس
پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈی پی او پاکپتن از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔اس موقع پر پنجاب پولیس کے سینئر افسر خالق داد لک نے انکوائری رپورٹ عدالت میں پیش کی جس میں بتایا گیا کہ ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ اثر و رسوخ کی بنیاد پر ہی کیا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دفتر میں ہونے والی ملاقات میں احسن جمیل گجر کا رویہ تضحیک آمیز تھا جبکہ آئی جی کلیم امام کا کردار ربر اسٹیمپ کا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ایشو وزیراعلیٰ کے کنڈکٹ کا تھا، ڈی پی او کو پیغام دینا تضحیک آمیز تھا اور یہ کہنا بھی تضحیک آمیز تھا کہ سب کا نقصان ہو گا جبکہ بادی النظر میں سب کا نقصان ہونا مبہم دھمکی ہے۔

رپورٹ کے مطابق احسن جمیل گجر بچوں کے خود ساختہ گارڈین بنے، قانونی رائے کے بعد ان کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے اور یہ قانونی معاملہ ہے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں ملاقات کے بعد رضوان گوندل کا تبادلہ ہوا، ان حالات میں عدالت کیا نتیجہ اخذ کرے جس پر ایڈووکیٹ جنرلپنجاب نے کہا وزیراعلیٰ کے پولیس کے کام میں مداخلت کے شواہد نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ صوبے کا سربراہ ہے، وزیراعلیٰ کے اقدام پر اعتراض نہیں لیکن اعتراض یہ ہے کہ ڈی پی او اور آر پی او کے ساتھ اجنبی شخص نے گفتگو کی۔انکوائری افسر نے عدالت کو بتایا کہ رضوان گوندل کے تبادلے کے بعد چارج چھوڑنے سے متعلق بھی وزیراعلیٰ ہاؤس سے رات 11 بجے فون کیا گیا ،ْوزیراعلیٰ کے پی ایس او نے دیگر افسران سے بھی رابطے کیے۔
انکوائری افسر خالق داد لک نے کہا کہ شواہد رضوان گوندل کے مؤقف کو درست قرار دے رہے ہیں، آر پی او ساہیوال نے انکوائری تک تبادلہ نہ کرنے کا کہا۔۔عدالت کے روبرو خاور مانیکا آبدیدہ ہوگئے اور کہا کہ پولیس نے میرے اور میرے خاندان کے ساتھ زیادتی کی ہے ،ْکیا میں معاملے پر سابق بیوی یا عمران خان سے بات کرتا۔اس موقع پر چیف جسٹس نے خاور مانیکا کو کہا کہ کیا آپ کو احسن جمیل معتبر نظر آئے ،ْیہاں جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ،ْآپ درمیان سے نکل جائیں، ہم نے اپنی انکوائری کرالی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعلیٰ کے قریبی دوست احسن جمیل گجر سے متعلق کہا کہ کیوں نہ ان کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج احسن جمیل گجر معافی مانگ رہا ہے پہلے اس کی ٹون ہی اور تھی۔۔عدالت نے حکم دیا کہ انکوائری رپورٹ کی کاپی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور سابق آئی جی پنجاب کلیم امام کو دی جائے جبکہ عدالت نے وزیراعلیٰ سے تین روز میں معاملے پر جواب بھی مانگ لیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آرٹیکل باسٹھ ون ایف بار بار پڑھیں، ہر آدمی کو معافی نہیں مل سکتی، کیا ہم معافی دیتے رہیں گے۔ ڈی پی او پاکپتن تبادلہ از خود نوٹس کیس کی مزید سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردی گئی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں