
اسلام آباد (ویب ڈیسک) سابق آرمی چیف اور سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کیس میں عدالت نے سزائے موت سنارکھی ہے اور اس پر مقتدر حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا ، اب یہ معاملہ اپیلوں میں ہے لیکن انکشاف ہوا ہے کہ نوازشریف کو دی تجویز دی گئی تھی کہ "سکون سے حکمرانی کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ پرویز مشرف کو جانے دیا جائے"اور یہ تجویز سینئر صحافی سلیم صافی نے دی جس کے بارے میں انکشاف انہوں نے خود کیا۔
روزنامہ جنگ میں سلیم صافی نے لکھا کہ ’’ 2013کے انتخابات کے چند روز بعد میاں نواز شریف نے رائےونڈ میں اپنے گھر پر لنچ کے لئے مدعو کیا، وہ افغانستان اور طالبان جیسے ایشوز پر گپ شپ کرنا چاہ رہے تھے۔
نیشنل سیکورٹی کے معاملات ڈسکس ہورہے تھے تو دورانِ گفتگو گزارش کی کہ وہ جنرل پرویز مشرف کو چھیڑنے سے گریز کریں، دلیل میں نے یہ دی کہ چونکہ بارہ تیرہ سال فوج کے ساتھ اُن کے تعلقات خراب رہے اِس لئے اُنہیں اِس خلیج کو پُر کرنے پر توجہ دینا چاہئے جبکہ پرویز مشرف کے خلاف کارروائی اِس خلیج کو دوبارہ وسیع کر سکتی ہے۔
اُنہوں نے بحث کی تو عرض کیا کہ جب تک وہ (میاں نواز شریف) اٹک جیل میں رہے تب تک پرویز مشرف حکمرانی کو انجوائے نہیں کر سکے تھے لیکن اُن کو جدہ بھیجنے کے بعد ہی اُنہوں نے سکون سے حکمرانی پر توجہ دی اور اِس کو انجوائے کرنے لگے۔اس لئے اگر وہ (میاں صاحب) سکون سے حکمرانی کرنا چاہتے ہیں تو اِس کے لئے ضروری ہے کہ پرویز مشرف کو جانے دیا جائے، بہر حال اقتدار پر فائز لوگ کب ہم جیسے طالب علموں کی سنتے ہیں۔
چنانچہ چند نام نہاد انقلابیوں اور خوشامدیوں کے ایما پر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ قائم کر لیا گیا، اِس اقدام کے خلاف اس وقت میرے کالم ریکارڈ پر ہیں، اسی طرح میرا یہ بھی موقف تھا کہ اگر مقدمہ قائم کرنا ہے تو پھر صرف پرویز مشرف کیوں اور وہ جج اور سیاستدان کیوں نہیں جو سہولت کار بنے؟
بہر حال مقدمہ قائم ہو گیا، کچھ عرصہ بعد میاں نواز شریف نے محترم بھائی میجر (ر) محمد عامر اوراس طالب علم کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر مشاورت کے لئے بلایا تھا، فواد حسن فواد بھی اس گفتگو کے گواہ ہیں، اُس دن اتفاقاً جنرل پرویز مشرف کو عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔
ضرور پڑھیں: 85 کروڑ روپے کا انعام، پاکستانی شہری نے متحدہ عرب امارات کی تاریخ کی سب سے بڑی لاٹری جیت لی
دورانِ ملاقات وزیراعظم سے عرض کیا کہ اُنہوں نے یہ پرویز مشرف والا تنازع کیوں مول لیا، وہ حق میں جبکہ میجر عامر اور یہ طالب علم مخالفت میں دلائل دیتے رہے۔ ایک موقع پر میاں نواز شریف نے طنز کرتے ہوئے میجر عامر سے کہا کہ میجر صاحب! فوجی آپ ہیں لیکن آپ سے زیادہ سلیم کو جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ہمدردی ہے۔
میں نے جواباً عرض کیا کہ وزیراعظم صاحب! میں جنرل مشرف کی نہیں بلکہ ملک اور نظام کی ہمدردی میں آپ سے یہ گزارش کررہا ہوں، آپ اس کے بجائے ڈیلیوری پر توجہ دیں۔ نہ آپ طیب اردوان ہیں اور نہ آپ کی پارٹی ان کی پارٹی جیسی ہے۔بہر حال میاں صاحب اپنے خوشامدی ٹولے کے ورغلانے پر طیب اردوان بننے کی کوشش کرنے لگے، چنانچہ ردِعمل میں عمران خان اور طاہر القادری کو میدان میں اُتار کر اُن کی حکومت کے خلاف دھرنے دلوائے گئے، نتیجتاً جو ہاتھ میاں صاحب گریبان میں لے کر گئے تھے، وہی ہاتھ قدموں میں لے گئے لیکن ان کی معافی قبول نہ ہوئی اور دوسرے فریق کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اس شخص کا ذہن صاف نہیں ہو سکتا۔
چنانچہ اِس کے بعد ایک سلسلہ شروع ہوگیا، میڈیا کو اُن کے خلاف لگا دیا گیا، اُنہیں مودی کا یار باور کرایا گیا، لاک ڈاؤن سے ان کو مزید کمزور کردیا گیا جبکہ پانامہ کو اُن کے خلاف اِس طرح استعمال کیا گیا کہ اُن کو وزارتِ عظمیٰ سے بھی محروم ہونا پڑا۔اِس دوران پھر شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان ان کو سمجھاتے رہے کہ سزا کے بعد ہمیں اپنی حیثیت کو دیکھ کر معاملات سدھار دینا چاہئیں لیکن اب اُن پر ایک طرف تو انتقام کا جذبہ غالب آگیا تھا اور دوسری طرف وہی خوشامدی اُن کو باور کراتے رہے کہ بس اُن کے جی ٹی روڈ پر نکلنے کی دیر ہے اور پاکستان راتوں رات ترکی بن جائے گا۔ایک خوشامدی نے اُنہیں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بھی تھما دیا جبکہ مریم نواز صاحبہ نام نہاد انقلابی خوشامدیوں کے ورغلانے میں اپنے والد سے بھی زیادہ انقلابی بن گئیں۔ نتیجتاً مسلم لیگ (ن) کو انتخابات میں مزید ٹھکانے لگا دیا گیا اور اس انتقام میں ہی عمران خان وزیراعظم بن گئے۔میاں صاحب اور مریم صاحبہ کو نہ صرف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں بلکہ انہیں کلثوم نواز صاحبہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر جیل جانے کے لئے پاکستان آنے کا ناقابلِ تلافی صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا۔
درمیان میں چند ماہ کے لئے چپ کا روزہ رکھ کر میاں صاحب اور مریم صاحبہ نے شہباز شریف کے کہنے پر دوبارہ سیاسی شریف بننے کی مشق کی لیکن کچھ عرصہ بعد دوبارہ انقلابی بننے لگے ۔ چنانچہ ان کی اس حرکت کی وجہ سے شاہد خاقان عباسی، رانا ثنااللہ اور خواجہ سعد رفیق جیسے اُن کے مخلص ساتھیوں کی آزمائشیں مزید بڑھ گئیں اور قید و بند کا سلسلہ شہباز شریف اور اُن کے بچوں تک بھی دراز ہوا۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں