They are 100% FREE.

جمعہ، 12 جولائی، 2019

ویڈیو الزامات ، جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ

ارشد ملک کو بطور احتساب عدالت کے جج عہدے سے ہٹا دیا گیا

    جج ارشد ملک کی کی خدمات وزارت قانون و انصاف کو واپس کر دی گئیں 

اسلام آباد : احتساب عدالت کے جج ارشد کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ترجمان اسلام آبادہائیکورٹ کے مطابق جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔جج ارشد ملک کی خدمات واپس کرنے کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزارت قانون کو خط لکھ دیا ہے۔قائم مقام چیف جسٹس نے خط میں کہا ہے کہ وزرات قانون جج ارشد ملک کی خدمات واپس لے۔
 اس سے قبل جج ارشد ملک نے حلفیہ بیان جواب رجسٹرار ہائیکورٹ میں جمع کروا تھا، جج ارشد ملک کی جانب سے دستاویزات بھی جمع کروائی گئیں
دستاویزات اور حلفیہ بیان قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق کو پیش کیا گیا۔
ارشد ملک نے خط کے ذریعے اپنے جواب میں کہا تھا کہ میں حلفیہ بیان دیتا ہوں میرا اس ویڈیو سے کوئی تعلق نہیں۔ مجھے بلاوجہ بدنام کیا جا رہا ہے۔ جج ارشد ملک نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ میرے خلاف پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔جج ارشد ملک نے ویڈیو سے متعلق کہا کہ ویڈیو کو ایڈٹ کر کے چلایا گیا۔جج ارشد ملکنے اپنے جواب میں الزمات کی تردید کی اور کہا کہ میرے اوپر فیصلے کے لیے کوئی دباؤ نہیں تھا۔
ترجمان اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ ارشد ملک نے یہ خط اپنے صفائی کے لیے پیش کیا۔ارشد ملک نے اپنے بیان کے ساتھ اتوار کو جاری کی گئی پریس ریلیز بھی لگائی ہے۔جب کہ دوسری جانب سپریم کورٹ میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کی تحقیقات کے لیے آئینی درخواست دائر کردی گئی تھی۔ جمعرات کو احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کی تحقیقات کے لیے آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی ہے، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ عدالت ہر صورت اس معاملے کی تحقیقات کرائے، جج ارشد ملک نے جو پریس ریلیز میں رشوت کی آفر کرنے کی بات کی ہے وہ سنجیدہ نوعیت کی ہے، جج ارشد ملک اپنی پریس ریلیز میں مریم نواز کے لگائے گئے الزمات ماننے سے انکار کرچکے ہیں لہذا جو الزامات عدلیہ پر لگائے گئے اس کی تحقیقات کا ہونا ضروری ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ 6 جولائی کی پریس کانفرنس کا ریکارڈ پیمرا سے طلب کیا جائے، اس ویڈیو سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عدلیہ آزادی سے کام نہیں کرتی اور بلیک میل ہوتی ہے لہذا وفاقی حکومت کو ہدایت کی جائے کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے اقدامات کرے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں