They are 100% FREE.

ہفتہ، 19 اکتوبر، 2019

وزیراعظم عمران خان نے یہ واضح کر دیا کہ وہ مولانا کے لیے اپنا لب و لہجہ نہیں بدلیں گے

وزیراعظم عمران خان نے یہ واضح کر دیا کہ وہ مولانا کے لیے اپنا لب و لہجہ ..
اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان کی علمائے کرام سے ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے واضح اعلان کر دیا کہ وہ مولانا فضل الرحمان کے بارے میں اپنا لب و لہجہ کسی صورت تبدیل نہیں کریں گے۔ اس حوالے سے صحافی عمر چیمہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مولانا سمیع الحق کے بیٹے حامد الحق حقانی وزیراعظم عمران خان نے نہائت شائستہ لہجے میں مطالبہ کیا کہ وہ مولانا فضل الرحمان کے لیے اپنا لہجہ تبدیل کر لیں۔
انہوں نے میٹنگ کے دوران وزیراعظم عمران خان کی کامیاب جوان پروگرام کے حوالے سے منعقد کردہ تقریب میں کی گئی تقریر کا حوالہ دیا۔ حامد الحق نے وزیراعظم عمران خان کو تجویز پیش کی اور وہ ناموں سے پُکارنے کی اپنی پالیسی پر تھوڑا غور کریں۔
جس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے 15 سے 20 منٹ کا ایک لیکچر دیا اور کہا کہ وہ مولانا کے خلاف اپنی اسی پالیسی کو جاری رکھیں گے جس نے اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔
وزیراعظم عمران خان نے میٹنگ میں مولانا فضل الرحمان سے متعلق اپنا رویہ تبدیل نہ کرنے کی صفائیاں بھی پیش کیں اور کہا کہ میں نے کیا کیا ہے ؟ میں نے تو مولانا فضل الرحمان کو بے روزگار نہیں کیا۔ مولانا کو چاہئیے کہ وہ مجھے الزام دینے کی بجائے عوام کو الزام دیں جنہوں نے ووٹ نہیں دیا۔ عمر چیمہ نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میٹنگ میں وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا۔
میں نے دھرنے کے خلاف آپ لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے آپ سب کو یہاں نہیں بلوایا۔ یہ میٹنگ اصلاحات کے بارے میں ہے۔ جس کے بعد وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری نے مداخلت کی اور شرکا کو باقی اجلاس میں نرم لہجہ رکھنے کی ہدایت کی۔ عمر چیمہ نے دعویٰ کیا کہ مفتی تقی عثمانی، مفتی رفیع عثمانی،قاری حنیف جالندھری اور مولانا فضل الرحیم نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
جبکہ نور الحق قادری نے ایسی تمام خبروں کی تردید کردی۔ انہوں نے کہا کہ مولانا جالندھری کی ٹوبی ٹیک سنگھ میں مصروفیات تھیں جبکہ مولانا تقی کو ایک بین الاقوامی کانفرنس کے لیے جدہ جانا تھا اسی لیے وہ وزیراعظم عمران خان سے علمائے کرام کے وفد کی ملاقات میں شرکت نہیں کر سکے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں