They are 100% FREE.

ہفتہ، 24 نومبر، 2018

مفتی منیب الرحمن کو بھی گرفتار کر لیا گیا ،بڑی خبر آ گئی


کراچی: حکومت نے تحریک لبیک پاکستان کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن کے بعد ملک کی کشیدہ صورتحال کے پیش نظر رویت ہلا ل کمیٹی کے چیئرمین ،ممتاز عالم دین اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کو بھی کراچی میں ان کے گھر پر نظر بند کر تے ہوئے ان کے گھر سے باہر نکلنے اور تمام ملاقاتوں پر پابندی عائد کر دی ہے،جماعت اسلامی پاکستان ،جمعیت علمائے اسلام (ف)جمعیت علمائے پاکستان سمیت دیگر مذہبی تنظیموں نے مفتی منیب الرحمن کی گرفتاری و نظر بندی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مفتی منیب الرحمن تمام مکاتب فکرکے لئے قابل احترام شخصیت ہیں ،ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، انکو قید کرنا بدترین آمریت کی علامت ہے۔
تفصیلات کے مطابق سیکیورٹی اداروں نے حکومتی ہدایت پر رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین ، ملک کےممتاز عالم دین اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کو کراچی میں ان کے گھر پر نظر بند کر تے ہوئے ان کے گھر سے باہر نکلنے اور ملاقاتوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے پولیس کی بھاری نفری ان کی رہائش گاہ پر تعینات کر دی ہے ۔واضح رہے کہ گذشتہ شب کراچی میں تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کی گرفتاری کے بعد کراچی میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے سےخطاب کرتے ہوئے مفتی منیب الرحمن نے اعلان کیا تھا کہ وہ پہلے بھی تحریک لبیک کی حمایت کرتے تھے ، خادم حسین رضوی کی گرفتاری کے بعد اب وہ غیر مشروط طور پر نہ صرف ان کی حمایت کریں گے بلکہ تحریک لبیک کے دیگر ذمہ داران کے ساتھ کھڑے بھی ہوں گے، رات گئے ہونے والے اس خطاب کے بعد سیکیورٹی اداروں نے مفتی منیب الرحمن کو گھر میں نظر بند کرتے ہوئے ان کی تمام ملاقاتوں پر پابندی عائد کردی ہے اور ان کی رہائش گاہ کے باہر بڑی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات کر دیئے ہیں۔

دوسری طرف جماعت اسلامی ، جمعیت علمائے اسلام (ف)جمعیت علمائے پاکستان سمیت دیگر مذہبی تنظیموں نے مفتی منیب الرحمن کو گھر میں نظر بند کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مفتی منیب الرحمن ایک معتدل اور اتحاد بین المسلمین کے داعی عالم دین ہیں،انکی نظر بندی قابل مذمت ہے۔انہوں نے کہا کہ مفتی منیب الرحمن تمام مکاتب فکرکے لئے قابل احترام شخصیت ہیں اوران کا سیاست سیکوئی تعلق نہیں ،انکو قید کرنا بدترین آمریت کی علامت اورحکومتی بوکھلاہٹ ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں