They are 100% FREE.

منگل، 29 جنوری، 2019

سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی بریت پر نظرثانی کے لیے دائر اپیل مسترد کر دی

سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی بریت پر نظرثانی کے لیے دائر اپیل مسترد کر ..
سلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستاننے توہین رسالت کیس میں آسیہ بی بی کی رہائی پر نظر ثانی کے لیے دائر کی جانے والی اپیل مسترد کر دی۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے آسیہ بی بی کی بریت پر نظرثانی کے لیے دائر کی جانے والی درخواست کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران قاری سلام کے وکیل کی لارجربینچ بنانے کی درخواست کی۔ وکیل غلام مصطفٰی ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ معاملہ مسلم اُمہ کا ہے، عدالت مذہبی اسکالرز کو بھی معاونت کے لئے طلب کرے۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اسلام کہتا ہے کہ جُرم ثابت نہ ہونے پرسزا دی جائے؟ عدالت نے فیصلہ صرف شہادتوں پردیا ہے۔
کیا ایسی شہادتیں قابل اعتبار نہیں اور اگرعدالت نے شہادتوں کاغلط جائزہ لیا تودرستگی کریں گے۔
وکیل غلام مصطفٰی نے کہا کہ سابق چیف جسٹس نے کلمہ شہادت سے فیصلہ کروایا، جسٹس ثاقب نثار نے کلمہ شہادت کا غلط ترجمہ کیا جس پرچیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سابق چیف جسٹس اس وقت بینچ کا حصہ نہیں ہیں، وہ آپ کی بات کا جواب نہیں دیں گے اورلارجر بینچ کا کیس بنا ہوا تو ضروربنے گا۔ یاد رہے کہ توہین مذہب کیس میں آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے کے خلاف مدعی قاری عبدالسلام نے نظر ثانی اپیل دائر کر رکھی تھی۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ تفتیش کے دوران آسیہ بی بی نے جُرم کا اعتراف کیا لیکن اس کے باوجود ملزمہ کو بری کردیا گیا۔ سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ آسیہ بی بی سے متعلق بریت کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔ سپریم کورٹ نے 24 جنوری کو توہین رسالت کیس میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظر ثانی اپیل سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔واضح رہے کہ 31 اکتوبر 2018ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت کے خلاف آسیہ مسیح کی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کلمہ شہادت سے آغاز کیا اور لاہورہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے آسیہ بی بی کو معصوم اور بے گناہ قرار دیا تھا ۔
سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی فوری رہائی کا حکم دیا تھا، عدالت کے اس فیصلے کے بعد آسیہ بی بی کو 9 سال کی اسیری کے بعد ملتان جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں