They are 100% FREE.

بدھ، 11 ستمبر، 2019

کرپشن قانون کی حکمرانی میں سب سے بڑی رکاوٹ، قیام پاکستان سے عدالتی نظام کوجکڑ رکھا ہے

کرپشن قانون کی حکمرانی میں سب سے بڑی رکاوٹ، قیام پاکستان سے عدالتی ..

اسلام آباد : چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ کرپشن قانون کی حکمرانی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس نے قیام پاکستان سے عدالتی نظام کوجکڑ رکھا ہے جوڈیشل ایکٹیویزم کی بجائے سپریم کورٹ عملی اورفعال جوڈیشلزم کو فروغ دے رہی ہے،جب ضروری ہوا،عدالت سوموٹونوٹس لے گی، ملک میں ایسا نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے جس میں کرپشن کیلئے کوئی جگہ نہ ہو،بدھ کونئے عدالتی سال کے آغاز کے موقع پرمنعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہاکہ قانون کی حکمرانی میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہے جس نے قیام پاکستان کے وقت سے عدالتی نظام کو جکڑ رکھا ہے، مجھے علم ہے کہ سوسائٹی کا ایک طبقہ جوڈیشل ایکٹیویزم میں عدم دلچسپی پر ناخوش ہے یہی طبقہ چند ماہ پہلے جوڈیشل ایکٹیویزم پر تنقید کرتا تھا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ سو موٹو پر عدالتی گریز زیادہ محفوظ اور کم نقصان دہ ہے، ہم آئین اور قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کے لئے پر عزم ہیں اورمیں واضح کرناچاہتاہوں کہ عدالتی عمل میں جودلچسپی رکھتے ہیں وہ درخواست دائر کریں جس کو سن کر فیصلہ کیاجائے گا، 
چیف جسٹس نے واضح کیاکہ میں پہلے بھی کہہ چکاہوں کہ سوموٹو کا اختیار قومی اہمیت کے معاملے پر استعمال کیا جائے گا یعنی جب بھی ہم ضروری سمجھیں گے سوموٹونوٹس لے لیں گے ورنہ کسی کے مطالبے پر لیا گیا نوٹس سوموٹو نوٹس نہیں ہوتا، فاضل چیف جسٹس نے زیرالتوا مقدمات کے حوالے سے کہاکہ گزشتہ عدالتی سال کے آغاز پر ملک بھر کی عدالتوں میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد 18لاکھ سے زائد تھی جواب کم ہوکر ساڑھی17 لاکھ سے زائد رہ گئی ہے ، اسی طرح گزشتہ سال سپریم کورٹ میں 19 ہزار 751 نئے مقدمات کا اندراج جبکہ گزشتہ سال 57 ہزار 684 مقدمات نمٹائے گئے ہیںہم نے مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے لئے عدالت عظمٰی میں ای کورٹ سسٹم متعارف کرادیا ہے، انصاف کے شعبے میں دیگر اہم ترین اصلاحات بھی کی گئی ہیںلیکن یہ امرواضح ہے کہ ہم بطور ادارہ اس تاثر کوخطرناک سمجھتے ہیں کہ ملک میں جاری احتساب سیاسی انجنیئرنگ ہے اس تاثر کے ازالے کے لیے اقدامات کیے جائیں، انہوں نے کہاکہ دنیا بھر کی سپریم کورٹ میں سب سے پہلے ہم نے عدالت عظمٰی میں ای کورٹ سسٹم متعارف کروایا ہے جس کے ذربعے سپریم کورٹ کی پرنسپل سیٹ اور دیگررجسٹریاں منسلک کردی گئی ، چیف جسٹس نے ا پنے خطاب میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو مشکل ترین کام قرار دیتے ہوئے کہاکہ آئین صدر مملکت کویہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کونسل کو کسی جج کے کنڈکٹ کی تحقیقات کی ہدایت کریں یہی وجہ ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل اس طرز کی آئینی ہدایات سے صرف نظر نہیں کرسکتی تاہم یہ واضح ہے کہ صدر مملکت کی کسی جج کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے پر اثر انداز نہیں ہوتی یعنی کونسل اپنی کارروائی میں آزاد اور بااختیار ہے چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم جوڈیشل کونسل میںگزشتہ عدالتی سال کے دوران 102 شکایات کا اندراج ہواجبکہ 149 شکایات نمائی گئی ہیں،اوراس وقت کونسل میں صرف 9 شکایات زیر التواء ہیں جن میں صدر مملکت کی جانب سے دائر دو ریفرنس بھی شامل ہیں جن پرکارروائی ہورہی ہے چیف جسٹس نے واضح کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے تمام ممبران اور چیرمین اپنے حلف پر قائم ہیں اورکونسل کسی بھی قسم کے خوف، بدنیتی یا دباؤ کے بغیر اپنا کام جاری رکھے گی،قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے علاوہ کونسل سے کوئی بھی توقع نہ رکھی جائے، تقریب سے پاکستان بار کونسل کے وائس چیرمین سید امجد شاہ نے بتایاکہ ماتحت عدلیہ میں انصاف کی فراہمی کبھی تسلی بخش نہیں رہی۔
جس کی وجہ سے لوگوں کو مقدمات کے فیصلوں کیلئے لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ماتحت عدلیہ کی کارکردگی میں بہتری لائی جائے آنہوں نے کہا کہ واٹس اپ پر ججوں کے تبادلے کے احکامات سے اجتناب کیا جائے اس کے ساتھ ماڈل کورٹس میں مقدمات کی کارروائی کو مزید بہتر بنانے کے ساتھ آئین کی بالادستی کیلئے ہر ادارے کواپنے حدود میں رہ کر کام کرناچاہیے، جبکہ سپریم کوچاہیے کہ ازخود نوٹس کیسے کے فیصلے میں بھی اپیل کا حق دیا جائے سید امجد شاہ نے مزید کہا کہ پولیس کی حراست میں لوگوں کی ہلاکت ایک سنگن مسئلہ ہے جس کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جائیں ، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدرامان اللہ کنرانی نے کہاکہ ہمارے معاشرے میں دوسروں پر تنقید کرنا آسان لیکن عمل کرنا مشکل ہے یہ امر باالکل واضح ہے کہ انسان دوسروں کے لیے بہترین منصف اور اپنے لیے بہترین وکیل ہوتا ہے میری استدعا ہے کہ عدالتی مقدمات کے حتمی فیصلے تک میڈیا کو مواد نشر کرنے سے روکا جائے ، صدرسپریم کورٹ بار نے کہاکہ تمام اختلافات اورکمزوریوں کے باوجود وطن کے دفاع کے لیے ہم سب ایک ہیں کیونکہ اسی فوج اور سکیورٹی اداروں کی قربانیوں کی بدولت ہم سکون کی نیند سوتے ہیں، میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ کسی کوکسی معزز جج کی کردار کشی کا استحقاق نہیں ہونا چاہیے، انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو شفاف بنانے کی ضرورت پرزور دیتے ہوئے کہا ہے کہ آرٹیکل 209 کے تحت جن ججز کے خلاف شکایات ہیں ان کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کو یقینی بنایا جائے، تقریب سے اٹارنی جنرل انورمنصور نے بھی خطاب کیا ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں