They are 100% FREE.

ہفتہ، 19 جنوری، 2019

’’ عمران خان کو کرپٹ نہیں سمجھتا لیکن ۔۔۔ ‘‘ مولانا فضل الرحمان نے ایسی بات کہہ دی کہ سیاسی کارکنوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ جائیں


اسلام آباد(ٹیکسیلا نیوزآن لائن)مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ عمران خان شوکت عزیز کی طرح ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں,احتساب کا موجودہ نظام مشکوک ہے ،حقیقی احتساب تو شائد ہم ہی کریں گے پھر کون بچے گا؟ جن پر کوئی کیس نہیں ہے وہی احتساب کر سکتا ہے ،اس نظام میں اپنے آپ کو  میں فٹ نہیں سمجھتا ،عمران خان ،آصف زرداری اور نواز شریف سمیت کسی کو بھی کرپٹ نہیں سمجھتا ،چائینہ کے ساتھ 70 سالہ دوستی اقتصادی دوستی میں تبدیل ہو گئی لیکن طویل مدت کی دوستی کا جب فائدہ اٹھانے کا موقع آیا تو حکومت نے سارے منصوبے ملیا میٹ کر دیئے
نجی ٹی وی کے پروگرام ’’لائیو ود نصرا للہ ملک ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ تمام اپوزیشن پارٹیوں کا اصولی موقف ہے کہ الیکشن میں  بدترین دھاندلی ہوئی ہے اور جعلی مینڈیٹ ملک پر حکمران ہے ،حکومت کو وقت دینا مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے،دیکھنا یہ ہے کہ ملکی حالات اس حکومت کو کتنا ٹائم دیتے ہیں ؟میرے خیال میں تو ایک دن بھی اس جعلی مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے،معاشی لحاظ سے  یہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین دور ہے ،عمران خان ووٹ لے کر نہیں آئے ،وہ بغیر ووٹ کے لایا گیا ہے ،وہ شوکت عزیز ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری ایک آواز پر پشاور میں 50 لاکھ لوگ جمع ہو سکتے ہیں،ہم عوام کے مذہبی جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں ،حکومت گرانے کے لئے کسی بڑے دھرنے کی ضرورت نہیں ہے ،یہ خود ہی گر جائے گی ،میں عمران خان کو پاکستانی سیاست کا حصہ نہیں سمجھتا ،وہ باہر کے ایجنڈے پر ہیں ۔انہوں نے کہا کہ مذہبی جماعتوں نے جزوی طور پر جہان جہاں اتحاد میں مل کر حکومت کی وہ سنہری ادوار تھے,میری پہلے بھی کوئی سیاست نہیں تھی ، اسمبلی سے باہر زبر دستی رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سیاست زندہ ہے ،ہم نے کراچی ،لاہور، سکھر  اور مظفر گڑھ میں ملین مارچ کئے ہیں اور 27 جنوری کو  ڈی آئی خان میں کرنے جا رہے ہیں ،اس سے ہماری نظریاتی سیاست  اور اجاگر ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ میرے ساتھی کہتے ہیں کہ اسمبلی سے باہر رہنا اچھا ہے کیونکہ اس سے ہم پبلک میں آ گئے ہیں ،پہلے پارلیمنٹ کی وساطت سے لوگوں سے ملتے تھے اب براہ راست لوگوں سے رابطے ہیں ،میری آواز بند کرنے کے لئے اسمبلی سے باہر رکھا گیا لیکن میری آواز پہلے سے زیادہ بلند ہو گئی ہے اور اس میں نئی تازگی آ گئی ہے ۔ملک کی نظریاتی شناخت کو ختم کرنے والوں نے مجھے اسمبلی سے باہر رکھا  کیونکہ میں اس میں رکاوٹ بن سکتا تھا ،اسمبلی سے میرے باہر رہنے سے اب ان کے لئے انگوٹھے لگانے کا عمل آسان ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ صرف آصف زرداری اور نواز شریف کے خلاف ہی مقدمات کیوں؟دو آدمیوں پر ہی مقدمات کیوں ہونے چاہیئں؟جن کی 32 ،32 کمپنیاں ہیں ان کا نام کیوں نہیں لیا جاتا ؟8 ہزار لوگوں نے این آر او سے فائدہ اٹھایا ان کا نام کیوں نہیں لیا جاتا ؟کتنے لوگوں نے قرضے معاف کرائے ان کا تو نام ہی نہیں لیا جاتا ،جنرلز ،بیورو کریٹس اور وفاداری کرنے والے سیاست دانوں کا نام کیوں نہیں لیا جاتا ؟جو سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کو سپورٹ اور وفا داری کرتے ہیں ان کا نام کیوں نہیں لیا جاتا؟ ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں نظریاتی قوتیں بھی ہیں اور رواجی سیاست کے لوگ بھی ہیں جو جاگیردارانہ سیاست کرتے ہیں ،ہمارے ملکی سیاسی اور اقتدار کے نظام میں اسٹیبلشمنٹ ، جاگیردار اور سول بیورو کریسی کی تکون تھی جو ملک پر راج کرتے تھے ،ضیا دور میں چوتھا عنصر صنعت کار بھی اس سسٹم میں شامل ہو گیا .مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہعمران خان ،آصف زرداری اور نواز شریف سمیت کسی کو بھی کرپٹ نہیں سمجھتا لیکنکیا صرف مالیاتی کرپشن ہی کرپشن ہوتی ہے؟اخلاقی کرپشن کوئی معیار نہیں ہے اسلامی معاشرے میں ؟ریاست مدینہ میں اخلاقی جرم کی کوئی حیثیت نہیں ہے؟ہم نے صرف مالی کرپشن پر ہی فوکس کر رکھا ہے اور جس طرح ہم کرپشن کو کنٹرول کرنے کا انداز اختیار کر رہے ہیں اس سے پیسہ جام ہو جاتا ہے،ایک ہے حرام کمائی ،ایک ہے خلافِ قانون کمائی اور ایک ہے قانون کے مطابق کمائی ،قانون کے مطابق جو کمائی ہے آپ کے ملک میں وہ تو سود کی کمائی کو بھی حلال قرار دے دیتے ہیں جو کہ شرعا حرام ہے ،ایک ہے قانون کی خلاف ورزی ،یہ قانون کا جرم ہے بعض دفعہ یہ شریعت کا جرم نہیں ہوتا ،پوری دنیا میں اس وقت  بلیک مارکیٹ کا کاروبار 60 فیصد  اور وائٹ مارکیٹ کا بزنس 40 فیصد ہے ، آپ دنیا کے اس سسٹم کو کس طرح چلائیں گے؟حکومت کے کرپشن کو اس انداز میں ختم کرنے کے رویے کی وجہ سے کوئی افسر اور بڑا بیورو کریٹ کسی فائل کو ہاتھ لگانے اور دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ ایسا کر دیا تو بعد میں کٹہرے میں کھڑا ہوں گا ،حیات ٹاور کو تو ریگو لرائز کیا جا رہے اور غریب لوگوں کے گھروں، مارکیٹوں اوردوکانوں  کو گرایا جا رہا ہے ،یہ ساری چیزیں کیا ہے اور کیا انصاف ہے؟۔انہوں نے کہا کہ علیمہ خان نے اپنے اثاثوں کو چھپایا کیوں تھا ؟عمران خان کو ان کے اپنے نعرے ہی کھا رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اسلام میں انتہا پسندی  ہے ہی نہیں ہے ،انتہا پسندی میں دو اطراف ہیں ،ایک افراط اور دوسرا تفریط ،افراط بھی نقص ہے اور تفریط بھی نقص ہے ،اعتدال یہ کمال ہے اور جب ہم اسلام کی بات کریں گے تو اعتدال کے ساتھ ہی کریں گے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں