They are 100% FREE.

منگل، 26 نومبر، 2019

سپریم کورٹ نے آرمی چیف کو نوٹس جاری کردیئے

سپریم کورٹ نے آرمی چیف کو نوٹس جاری کردیئے
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں 3 سال کی توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے آرمی چیف کو باضابطہ فریق بنا لیا ہے، جس کا نوٹس جاری کر کے جواب طلب کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں 3 سال کی توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کرنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔
سماعت کے آغاز پر درخواست گزار جیورسٹ فاﺅنڈیشن کے وکیل ریاض حنیف راہی کی جانب سے درخواست واپس لینے کی استدعا کی گئی‘جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک درخواست موصول ہوئی ہوئے، درخواست گزار اور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ موجود ہے، اس درخواست کے ساتھ کوئی بیان حلفی بھی موجود نہیں. چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ یہ درخواست آزادانہ طور پر دی گئی ہے یا بغیر دباﺅ کے، اس لیے ہم درخواست واپس لینے کی درخواست نہیں سنیں گے‘عدالت عظمیٰ نے درخواست واپس لینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 184 (سی) کے تحت عوامی مفاد میں اس درخواست پر سماعت کی اور اسے ازخود نوٹس میں تبدیل کردیا.
درخواست پر سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ میں اٹارنی جنرل انور منصور خان پیش ہوئے‘سماعت کے دوران چیف جسٹس کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ صرف صدر مملک آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرسکتے ہیں وزیراعظم کو اس توسیع کا اختیار نہیں جس پر عدالت میں موجود اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع صدر کی منظوری کے بعد کی گئی اور سمری کو کابینہ کی جانب سے منظور کیا گیا.
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پشاور ہائیکورٹ میں بھی اس طرح کی درخواست دائر ہوئی تھی جو واپس لے لی گئی تھی‘عدالت میں اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے صدر نے 19 اگست کو آرمی چیف کی توسیع کی منظوری دی تو 21 اگست کو وزیراعظم نے کیسے منظوری دے دی سمجھ نہیں آرہا کہ صدر کی منظوری کے بعد وزیراعظم نے دوبارہ کیوں منظوری دی. اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد وزیراعظم نے دستخط کیے جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کابینہ اور وزیراعظم کی منظوری کے بعد صدر نے دوبارہ منظوری دی، اس پر انہیں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ صدر مملکت نے کوئی منظوری نہیں دی.
اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ حتمی منظوری تو صدر مملکت نے دینا ہوتی ہے‘بعد ازاں عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کر رہے ہیں ساتھ ہی عدالت نے آرمی چیف سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کردیے. سپریم کورٹ کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ اس درخواست میں عدالت آرمی چیف کو فریق بنا رہی ہے. سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کا اختیارکہاں ہے؟ جس پراٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کی توسیع کا اختیاروفاقی کابینہ کا ہے جسٹس منصورعلی شاہ نے پوچھا کہ کیا آرمی چیف کی توسیع کیلئے رولزمیں کوئی شق موجود ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مدت ملازمت میں توسیع کیلئے کوئی مخصوص شق موجود نہیں .
چیف جسٹس نے کہا کہ سمری میں توسیع لکھا گیا جبکہ نوٹیفکیشن میں آرمی چیف کا دوبارہ تقرر کردیا گیا، قواعد میں آرمی چیف کی توسیع یا دوبارہ تقرری کا اختیار نہیں، حکومت صرف ریٹائرمنٹ کو معطل کر سکتی ہے، آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ ابھی ہوئی نہیں . چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف نے 3 ریٹائرڈ افسران کوسزادی، ان کی ریٹائرمنٹ معطل کرکے ان کا ٹرائل کیا گیا اورسزادی گئی‘جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ علاقائی سیکورٹی کی بنیاد پر آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کی گئی، سیکورٹی کا ایشوتو ہر وقت رہتا ہے چیف جسٹس نے کہا کہ سیکورٹی کو تو صرف آرمی چیف نے نہیں بلکہ ساری فوج نے دیکھنا ہوتا ہے اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا کہ تقرری کرنے والی اتھارٹی توسیع کا اختیار بھی رکھتی ہے ریٹائرمنٹ کی معطلی تو کچھ دیر کیلئے ہوگی .
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دستاویزات کے مطابق کابینہ کی اکثریت نے توسیع پر کوئی رائے نہیں دی، 25 رکنی کابینہ میں سے صرف 11 نے توسیع کے حق میں رائے دی، 14 ارکان نے عدم دستیابی کے باعث کوئی رائے نہیں دی، کیا حکومت نے ارکان کی خاموشی کو ہاں سمجھ لیا؟ جمہوریت میں فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں . اٹارنی جنرل نے کہا کہ جنہوں نے رائے نہیں دی انہوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیاچیف جسٹس نے کہا کہ کیا کابینہ ارکان کو سوچنے کا موقع بھی نہیں دینا چاہتے، کابینہ کے 14 ارکان نے ابھی تک آرمی چیف کی توسیع پرہاں نہیں کی .
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کابینہ میں توسیع کی کوئی وجوہات زیر بحث نہیں آئی، کیا کابینہ نے توسیع کی منظوری دیتے ہوئے اپنا ذہن استعمال کیا‘چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف کی توسیع کی ٹرم فکس کیسے کر سکتے ہیں، یہ اندازہ کیسے لگایا گیا کہ 3 سال تک ہنگامی حالات رہیں گے، ریٹائرمنٹ کو عارضی طور پر معطل کیا جا سکتا ہے، آرمی چیف کی مدت میں 3 سال کی توسیع کسی رول کے تحت ہوئی، وہ رول آپ نہیں دکھا رہے .
سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے اس کیس کوعوامی اہمیت کا معاملہ قراردیتے ہوئے درخواست کو ازخود نوٹس میں تبدیل کردیا اٹارنی جنرل نے نوٹیفکیشن معطل نہ کرنے کی درخواست کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں ابھی وقت ہے‘عدالت نے آرمی چیف کو فریق بناتے ہوئے ان سمیت وزارت دفاع اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی .خیال رہے 25 نومبر کو جیورسٹ فاﺅنڈیشن نے آرمی چیف کی مدت ملازت میں توسیع کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی.
یاد رہے کہ رواں سال 19 اگست کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کردی گئی تھی‘وزیراعظم آفس سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ مدت مکمل ہونے کے بعد سے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید 3 سال کے لیے آرمی چیف مقرر کردیا. نوٹیفکیشن میں کہا گیا آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا فیصلہ علاقائی سیکیورٹی کی صورتحال کے تناظر میں کیا گیا‘آرمی چیف کو مزید 3 برس کے لیے پاک فوج کا سربراہ مقرر کرنے کے فیصلے کا مختلف سیاستدانوں اور صحافی برادری نے خیر مقدم کیا تھا‘تاہم چند حلقوں کی طرف سے حکومت کے اس فیصلے پر تنقید بھی کی جارہی تھی.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں