They are 100% FREE.

ہفتہ، 1 جون، 2019

سزائے موت پانے والے برگیڈئر (ر) راجہ رضوان کے ’را‘ کے ساتھ تعلقات کب اور کیسے قائم ہوئے اورپاک فوج نے کیسے اس سب کا پتا چلایا:تمام معلومات منظرعام پر آگئیں

سزائے موت پانے والے برگیڈئر (ر) راجہ رضوان کے ’را‘ کے ساتھ تعلقات کب ..

برگیڈئر (ر) راجہ رضوان کئی یورپی ممالک میں ملٹری اتاشی رہا، بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ساتھ تعلقات قائم کیے، انہی دنوں پاکستانی سکیورٹی اداروں نے اس کے خلاف تحقیقات شروع کیں، اکتوبر 2018میں اسے اداروں کی جانب سے خاموشی سے حراست میں لیا 

 آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے ملک سے غداری کرنے والے بریگیڈیئر(ر) راجہ رضوان کی سزائے موت کی توثیق کردی گئی ہے جبکہ لیفٹینٹ (ر) جنرل جاوید اقبال کو 14سال کی قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔ غداری کی سزا پانے والے بریگیڈیئر (ر) راجہ رضوان کے حوالے سے  معلومات سامنے آئی ہیں کہ راجہ رضوان پاک فوج میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہا اوروہ 2014 میں پاک فوج سے ریٹائرہونے کے بعد اسلام آباد میں رہ رہا تھا۔
ذرائع کے مطابق راجہ رضوان کی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی سکیورٹی ادارے اس پر نظر رکھے ہوئے تھے اورریٹائرمنٹ کے بعد میں بھی اس پر نظر رکھی گئی۔فوجی ذرائع کا اس حوالے سے کہناہے کہ 2009 سے 2012 کے دوران رضوان اہم یورپی ممالک میں ملٹری اتاشی کی ذمہ داریاں نبھاتا رہا ہے اوراسی دوران اس کا رابطہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے ہوا۔
بتایا گیا ہے کہ جرمنی اور آسٹریا میں تعیناتی کے دوران راجہ رضوان نے بھارت کو بھاری رقوم کے عوض ملکی راز بیچے البتہ ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج میں موجود تحقیقاتی ادارے کو اس بات کا علم ہوگیا تھا اسی لیے راجہ رضوان کی نگرانی مزید سخت کردی گئی۔
فوجی ذرائع کے مطابق خوش قسمتی سے راجہ رضوان کی جانب سے دشمن کو بیچے گئے رازوں کا پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا لیکن غلطی کی سزا اسے مل گئی ہے۔ 2014میں بریگیڈیئر راجہ رضوان پاک فوج سے ریٹائر ہوگیا تھا اور اسلام آباد میں رہ رہا تھا البتہ اس دوران اس کے خلاف کی جانے والی تحقیقات خاموشی سے جاری رہیں اور 10اکتوبر 2018کو جب وہ اپنے ڈرائیور وسیم اکبر کے ساتھ اپنے دوست کو ملنے کے لئے جارہا تھا تواسلام آباد کی جی10مارکیٹ کے قریب سے اسے تحویل میں لے لیا گیا۔
کئی روز تک واپس نہ پہنچنے پر اس کے بیٹے علی رضوان نے اپنے وکیل انعام الرحیم خواجہ کی مدد سے 23اکتوبرکواسلام آباد ہائی کورٹ میں اس حوالے سے درخواست دائر کی اوردرکواست میں موقف اپنایا گیاکہ نا معلوم افراد اس کے والد راجہ رضوان کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔علی رضوان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ 10اکتوبر کی رات کو سادہ کپڑوں میں ملبوس3 افراد نے اس کے والد کو اغواکیا ہے اور اس کے بعد سے اس کے والد کا موبائل فون بند جارہا ہے۔
اس کے بعد ایک اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس کیس کی سماعت ہوئی اور15نومبر 2018کو وزارت دفاع کے ایک نمائندے نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ راجہ رضوان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کاروائی کی جارہی ہے اور اس کے ایک فوجی ہونے کی وجہ سے اس کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحتکورٹ مارشل کا مقدمہ کیا جائے گا۔اس کے بعد عدالت کی کاروائی غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی گئی تھی۔
اب 30مئی 2019 کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے راجہ رضوان کی سزائے موت کی توثیق کردی ہے۔ ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں