They are 100% FREE.

اتوار، 23 جون، 2019

نظام انصاف میں بہتری نہیں زوال آیا


(جسٹس جواد ایس خواجہ، چیف جسٹس آف پاکستان کا آئینی مدتِ منصبی کی تکمیل کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب۔ 9 ستمبر2015)
خواتین و حضرات ! حمد اُس خدا کی جس نے دن اور رات بنائے اور جس نے سیاہ اور سفید کی تمیز اور پرکھ ہمارے ضمیر میں ڈال دی۔ 
ثناء رحمت اللعالمین کی جو ہر غریب ، نادار، یتیم اور مفلس کا ملجا و ماوا تھے۔



آج اس محفل سے مخاطب ہونا میرے لئے باعثِ اعزاز ہے۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ آج میں رسمی گفتگو سے ہٹ کر کچھ دل کی باتیں آپ حاضرینِ محفل کے گوش گزار کر سکتا ہوں۔ در اصل بات یہ ہے کہ کچھ حقیقتیں تلخ ہیں اور کچھ شیریں مگرآج اس موقع پر دونوں کا بیان ضروری ہے۔



ہمارے ہاں ایک روایت ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ہر جج کے ریٹائر ہونے پر ایک الوداعی تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں کچھ تعریفی کلمات کہے جاتے ہیں اور نظامِ عدل کی بہتری کے لئے کچھ تجاویز بھی دی جاتی ہیں۔ میں اِن انمول گھڑیوں کو رسمی کلمات کی نذر نہیں کرنا چاہتا۔ ہم ججوں کو مقدمات کی سماعت کے دوران ایسے مواقع میسر نہیں آتے کہ جہاں ہم اپنے زیرِ بحث مقدموں سے ہٹ کرکوئی بات کریں اور اس ملک میں رائج نظامِ عدل کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ لیں۔



اس تناظر میں آج میں اس مقدس ادارے یعنی نظام عدل کے بارے میں جس کی خدمت میں ، میںنے عمرِ عزیز کی چار دہائیاں گزار دی ہیں، کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ ان باتوں کا مقصد خود احتسابی ہے۔ایسی کڑی اور بے لاگ خود احتسابی کے بغیر ہم نظام کو بہتر نہیں بنا سکتے۔اس لئے میںآپ کی اجازت سے آج کی یہ محفل خود احتسابی کی نذر کرتا ہوں۔



ہمارے آئین کے آرٹیکل 37کی شق (د) میں عوام سے یہ وعدہ کیا گیا ہے اور ریاستی اداروں پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ جلد اور سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔ لہٰذا دیکھنے کی بات یہی ہے کہ عوام اور سائلان کو ، جو کہ انصاف کے متلاشی ہیں، فوری اور سستا انصاف مل رہا ہے یا نہیں اور آیا ہمارے ملک میں ایسا نظامِ عدل موجود ہے جو ہر فرد کو جلد اور سستے انصاف کی ضمانت دے؟



سامعین معزز! خواتین و حضرات، میں یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوں کہ بد قسمتی سے اِن سوالوں کا جواب نفی میں ہے اور یہ صرف میری ذاتی رائے نہیں بلکہ اعداد و شمار اس بات کا بّین ثبوت مہیا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں، گزشتہ سال میں نے اپنے عملے کے تعاون سے ایک تحقیقاتی رپورٹ مرتب کروائی ہے۔ اس رپورٹ سے یہ عیاں ہے کہ ایک دعویٰ کے عدالت میں دائر ہونے سے لے کر سپریم کورٹ میں اُس کا حتمی فیصلہ ہونے تک اوسطاً پچیس سال لگ جاتے ہیں۔ یہ اوسط ہے۔ بہت سے دعوے تو تین تین پشتوں تک کھنچ جاتے ہیں۔فوجداری مقدمات میں بھی FIR سے اور چالان عدالت میں جمع ہونے سے لے کر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک ایک عرصہ دراز بیت جاتا ہے۔ کئی مرتبہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے والا ملزم جب بالآخر بری ہوتا ہے تو اُس کی عمر کے کئی سال پسِ زنداں گزر چکے ہوتے ہیں اور عمر کے اِس زیاں کا کوئی ازالہ ممکن ہی نہیں ہوتا اور یہ صرف اُس بد نصیب کی ہی بد بختی نہیں بلکہ اس کے بیوی بچے ماں باپ عزیز و اقارب سبھی ایک کرب میں مبتلا رہتے ہیں۔ اول تو پولیس، وکلاء اور عدالتوں سے ہی اُنہیں کوئی خاص ہمدردانہ رویہ نہیں ملتا۔





سالہا سال تک مقدمات کی پیروی کرنے کے لئے فریقین مقدمہ کو بھاری اخراجات بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔ لہٰذا اگر عوام الناس میں یہ تاثر قائم ہے کہ انصاف دینے پر مامور ادارے مثلاً عدلیہ، پولیس، وکلاء اور دیگر سرکاری و نیم سرکاری ادارے آئینی تقاضا زیرِ آرٹیکل 37 (د) پورا کرنے میں مستعد نہیں، تو یہ تاثر بے جا نہیں بلکہ میں چار دہائیوں کے ذاتی مشاہدے اور حالیہ تحقیقاتی مطالعے کی بنیاد پر اس عوامی تاثر کا اثبات کرتا ہوں۔تشویش اس بات پر ہے کہ 1975ء میں جب میں نے وکالت کا آغاز کیا تھا تو صورتِ حال ایسی نہ تھی۔ گزشتہ چار دہائیوں میں رائج نظام میں بہتری نہیں بلکہ بتدریج انحطاط واقع ہوا ہے۔ ان اداروں کو اور خود معاشرے اور سماج کو شعوری طور پر اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسی خود نگری اور احساس زیاں ہی بہتری کی طرف پہلا قدم ثابت ہوتے ہیں۔



میں محفل میں موجود نوجوانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے نظامِ عدل کی حالت ہمیشہ ایسی نہیں تھی۔ میرے تحقیقاتی عملے نے پرانے قانونی جرائد کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آج سے سو سال قبل مقدموں کا اوسط دورانیہ صرف1 ایک سال تھا۔ اس عرصے میں مقدمہ پہلی عدالت سے لے کر آخری عدالت تک پہنچ جاتا تھا۔ آج اسی کارروائی میں پچیس25 سال لگتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1970ء کی دہائی میں جب میں نے وکالت شروع کی تھی، تب بھی حالات اتنے ابتر نہیں تھے جتنے آج ہیں۔
ان اعداد و شمار کی بنیاد پر میں سمجھتا ہوں کہ ریاست کے تمام اعضاء کو یہ برملا اعتراف کرنا چاہئیے کہ جس ”سستے اور فوری انصاف” کا وعدہ ہمارا آئین عوام سے کرتا ہے، ہم اُس وعدہ کو نبھانے میںفی الحال کامیاب نہیں ہوئے۔ اس لئے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ نظام کی ناکامی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اوراِس نظام کی خامیوں کو کس طرح دور کیا جا سکتا ہے؟





خود احتسابی کا تقاضایہ ہے کہ ہم اس تجزیہ کا آغاز عدلیہ سے کریں۔ 
آج سے سولہ سال پہلے جب میں نے پہلی بار مسندِ قضا کو قبول کیا اُس وقت میں نے پاکستان کے آئین کے تحت ایک حلف اُٹھایا تھا یہاں پر اُس آئینی حلف کے ایک جملے کو دہرانا چاہتا ہوں۔ اُس حلف میں لکھا تھا:

”میں ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ بلا خوف و رعایت و بلا رغبت و عناد قانون کے مطابق انصاف کروں گا”۔
سب جج جب اپنے مقدس منصب کا حلف اٹھاتے ہیں تو یہ قسم اٹھاتے ہیں کہ ہم اپنے فیصلوں پر کسی خارجی محرک کو اثر انداز نہیں ہونے دیں گے۔ نہ کسی لالچ کو اور نہ کسی خوف کو۔ مگرمیں بڑے احترام سے یہ عرض کروں گا کہ بعض اوقات میں نے عدل کے ایوانوں میں خوف کے کئی روپ دیکھے ۔ اس خوف کا سبب کہیں دھونس اور دبائو تو کہیں پیسے والوںیا اثر رسوخ والوں کی ناراضگی کا خوف ۔ یہ عوامل ماضی قریب کی تاریخ میںزیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ عدلیہ کے ایوانوں میںبے باکی اور بے خوفی کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی علم و فضل اور پارسائی کی۔



ایوانِ عدل کی رونق بے خوف چہروں سے ہی ہوتی ہے۔اس چمک کو نکھارنے کے لئے معاشرے کے ہر فرد پر اور بلخصوص وکلاء اور ہم ججوں پر لازم ہے کہ ہم سب مل کراور بے خوف ہو کر اس پیشہ وارانہ بد عملی اوربے راہ روی کا مقابلہ کریں جو بد قسمتی سے اس نظام میں سرایت کر گئی ہے اور جس کی وجہ سے غریب و نادار فریقینِ مقدمہ کو جلد اور سستا انصاف میسر نہیں ہوتا۔



اب میں ایک اور معاملے کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔ جسے ہمارے معاشرے میں بسا اوقات ”دید اورمروت” کا گمراہ کن نام دیا جاتا ہے۔یہ ”دید ومروت” عدلیہ کے لئے بہت خطرناک چیز ہے کیونکہ یہ ہمیں بے باک اور دلیرانہ فیصلے کرنے سے روک سکتی ہے اور یوں نظامِ عدل میں انحطاط کا سبب بن سکتی ہے۔ اس روش کو شعوری طور پر پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے تا کہ ہم آئین اور حلف کی وفاداری مندرجہ بالا الفاظ کے عین مطابق کر سکیں۔





اس امر کے علاوہ اگر کوئی چیز عدلیہ کو انصاف مہیا کرنے میں حائل ہو سکتی ہے تو وہ ہے بے حسی۔عدل کسی منصب کسی پیسے اور کسی نوکری کا نام نہیں۔ یہ ایک صفتِ خدائی ہے اور کسی بھی صفتِ خدائی کا ادراک کرنے کے لئے صرف عقل اور محنت کافی نہیں ہوتے۔ مقامِ عدل تک رسائی دلِ بینا کے راستے سے ہی ممکن ہے۔ قاضیِ عادل صرف وہ شخص ہو سکتا ہے جس کے سینے میں ایک دردمندانہ دل دھڑکتا ہو۔درونِ سینہ حساس دل کی دھڑکن ہی عدل، انصاف اور انسانیت کے تقاضے پورا کر سکتی ہے۔ 
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب 
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں



انصاف کی فراہمی کے لیے ایسا دل درکار ہے جو خود غرضی کی قید سے آزاد ہوجواپنوںکے علاوہ غیروں کا درد بھی محسوس کرتا ہو۔



اب میں اپنے آپ پر لاگو ضابطہ ٔ اخلاق کی ایک اہم شق کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ اس ضابطے کی شق میں یہ لکھا ہے کہ جج اپنے زیرِ سماعت مقدمات کو جلد نمٹانے کے لئے جو بھی اقدامات لازم ہیں، اُنہیں اُٹھانے سے گریز نہیں کرے گا اور ضابطۂ اخلاق کے اسی آرٹیکل میں درج ہے کہ جوجج اس امر سے تغافل برتے گا وہ اپنے کار ہائے منصبی کی ادائیگی سے وفا دار نہیں اور یہ تغافل جج میں بہت بڑی خامی ہے۔ ضابطۂ اخلاق کے اس فریضے کی بجا آوری جج اکیلا نہیں کر سکتااس کام کے لئے بہر حال ہمارے نظامِ عدل میں وکلاء کی نیک نیتی، تن دہی اور فرض شناسی لازمی ہے۔



اب میں نظامِ عدل کے دوسرے اہم ستون یعنی وکلاء برادری کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔ 1975ء سے 1999ء تک، 24 سال میں اس برادری کا حصہ رہا ۔ وکلاء برادری کا کردار اس لئے بہت اہم ہے کیونکہ ہمارا مروجہ عدالتی نظام مخاصماتی(adversarial) ہے۔ اس نظام میں عدالتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے جج صاحبان کا انحصار زیادہ ترفریقین کے وکلاء پر ہوتا ہے۔ وکلاء اپنی اِس کلیدی حیثیت کو انصاف کی فراہمی میں معاونت کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں اور اِس میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے بھی۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ وکلاء کی ایک تعداد ایسی ہے جو اپنی اس حیثیت کو نظام کی بہتری اور انصاف کے جلد اور سستی ترسیل کے لئے استعمال نہیں کررہی ہے۔ اس منفی کردار کا ایک منہ بولتا ثبوت روز افزوں ہڑتالوں کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ آج سے 40 سال قبل جب میں نے وکالت کا آغاز کیا تھا تو اس ملک کی عدالتوںمیں ہڑتال نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ مگر آہستہ آہستہ ہڑتالوں کا وبال ہر طرف پھیل گیا۔ گزشتہ سال مرتب کی گئی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں میں یکم جنوری 2014ء سے لے کر دسمبر 2014ء تک 50 سے زیادہ ہڑتالیں ہوئیں۔ی عنی عدالتی سال کے تقریباً ہر چوتھے دن وکلاء ہڑتال پر تھے۔ ان ہڑتالوں کی وجہ سے یا دیگر وجوہ پر التوا سے تقریباً 50 فیصد مقدمات مؤخر ہو تے رہے کیونکہ عدالتی معاونت کے لئے ایک یا دونوں فریقین کے وکیل غیر حاضر رہے۔ کچھ یہی حال دیگر ضلعوںکا بھی ہے۔اسی طرح وکلاء کی جانب سے حیلے بہانے بنا کر التواء لینے کی روش بھی آج ہماری عدالتوں میں عام ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس پیشے کے کچھ معتبر نام بھی ایسی روش سے باز نہیں آتے۔ ظاہر ہے کہ وکلاء کے اس رویے کا نتیجہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی صورت میں نکلتا ہے۔



نظامِ عدل کی تباہی میں جہاں ججوں اورو کیلوں کا ہاتھ ہے تو وہیں ساتھ ساتھ اِس کی ذمہ دار حکومت یا انتظامیہ بھی ہے۔ دیوانی عدالتوں میں مقدمات کا لا متناہی سلسلہ صرف اس لئے آ رہا ہے کیونکہ سرکاری اور نیم سرکاری ادارے شہریوں کو ان کا حق دینے سے قاصر ہیں اور فوجداری مقدمات میں اگر معصوموں کو سزا اور مجرموں کو ڈھیل مل رہی ہے تو اِس کی ذمہ داری زیادہ تر پولیس اور استغاثہ کے محکموں پر عائد ہوتی ہے۔



اصل میں نظامِ عدل کی جڑیں کاٹنے میں ہمارا پورا سماج ملوث ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ دینِ اسلام کے اہم ترین تصورات میں سے ایک ”حق کی گواہی دینا” ہے۔ مگر آج ہمارے سماج میں ایسے لوگ شاذ و نادر ہی ملتے ہیں جو نفع و نقصان کی پرواہ کیے بغیرعدالت میںآ کر حق کی گواہی دیں۔ عدالت کیا عدالت سے باہر بھی اپنے گھروں کی چار دیواری سے باہر نکل کر کسی بھی جگہ برملا سچ بولنے والے لوگوں کا فقدان ہے۔میرے لئے یہ بہانہ کوئی معنی نہیں رکھتا کہ سچ کی گواہی دینا آج کل بہت خطرناک ہے۔ سچ کہنا آج سے نہیں ازل سے ایک خطرناک عمل رہا ہے۔ سقراط نے حق گوئی و بے باکی کے عوض زہر کا جام پیا اور اس وجہ سے گو وہ جہانِ فانی سے 2000 سال قبل رخصت ہو گیامگراس کا نام آج تک اور رہتی دنیا تک حق گوئی کی بناء پر زندہ و جاوید رہے گا۔اسی طرح حضرت عیسیٰ نے مسیحائی کی خاطر سولی کو گلے لگایا تھا۔ حضور سرورکائناتۖنے سنگ زنی برداشت کی اور اپنے دندان ِ مبارک میدانِ جنگ میں شہید کروائے تھے اور قافلہِ شوق کے ، امام حسین نے توخون کا نذرانہ پیش کر دیا تھا مگرحق بات پر خاموشی اختیار نہ کی۔



تعجب کی بات یہ ہے کہ اِن ہستیوں کے نام لیوا اِس معاشرے میںاکثر مقدموں میں شہادت علی الحق کے لئے عدالت میں کھڑا ہونے کے لئے لوگ مشکل سے ملتے ہیں۔اِس بات کی اشد ضرورت ہے ہم بطورِ معاشرہ کلامِ پاک ( سورة النساء کی آیت نمبر 135)کی طرف توجہ دیں۔ جس آیت کا ترجمہ درج ذیل ہے۔ 
”اے ایمان والو۔ انصاف پر خوب قائم ہو جائو۔ اللہ کے لئے گواہی دیتے رہو۔ چاہے اِس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتہ داروں کا۔ فریقِ معاملہ خواہ مالدار ہو یا فقیر ہو۔ بہرحال اللہ کو اِس کا سب سے زیادہ اختیار ہے۔ خواہش کے پیچھے نہ جائو کہ حق سے الگ ہو جائو۔ اگر تم ہیر پھیر کرو گے یا منہ پھیرو گے تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے”۔



موجودہ نظام میں بہت مرتبہ نظر آتا ہے کہ بہت سے لوگ اس آیت کی لغویت اور معنویت سے منکر ہیں۔ 
نظامِ عدل کے انحطاط میں سماجی اور معاشرتی انحطاط کا بھی دخل ہے۔ عدلیہ میں میرے ایک بزرگ نے، جو درویش صفت اور درویش طبع تھے، ایک دن مجھ سے کہا کہ خواجہ صاحب! جس قوم کے افراد عدل و انصاف کے قائل نہ ہوں اور وہ خود جھوٹ بولیں ، رشتے دار، عزیز ، ہمسائے کا حق ماریں اور یہ برائیاں ساری قوم کی سوچ میں سرایت کر جائیں تو پھر انصاف کی فراہمی ممکن نہیں اور انصاف کی توقع بھی عبث ہے۔
مرض کی تشخیص کے بعد اب کچھ گزارشات اِس کے حل کے بارے میں کرتا چلوں۔ سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئیے کہ جب کوئی عمارت بوسیدہ ہو جائے تو اُس کی تزئین و آرائش کام نہیں آتی۔ مولانا جلال الدین رومی اپنی مثنویِ معنوی میں فرماتے ہیں۔
آں بنائے کہنہ کہ باداں کنند
اول آں بنیاد را ویراں کنند



بات اصل میں جرأت کی ہے۔ جس کسی کے دل میں یہ خواہش ہے کہ وہ پاکستان کے نظامِ عدل کے ویران کھنڈر کو آباد دیکھنا چاہتا ہے ،اسے اپنے دل میں فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہئیے۔ہمیں اس بات کا اقرار کرنے میں تأمل نہیں ہونا چاہئیے کہ ایسا نظام جو سستا اور فوری انصاف مہیا نہیں کر رہا ۔اسے بدلنا حکومت، ریاستی اداروں اور معاشرے کے ہر فرد بشمول وکلاء اور ججوں کے لئے ضروری ہے۔



موجود ہ نظام کے معروضی حالات کے پیشِ نظر یہ سوال اُٹھتا ہے : کیا ہمارے معاشرے میں انصاف کی فراہمی کے لئے موجودہ مخاصماتی نظام ِ عدالت موزوں ترین ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں متبادل نظام ہائے عدل کی طرف بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔شاید وہ تحقیقاتی (inquisitorial)نظام جو دُنیا کے کئی ممالک میں رائج ہے اورجو اسلامی روایتِ داد رسی وقضاسے قریب ترہے اُس کو اپنانا ہمارے لئے مفید ہو۔ تحقیقاتی نظام میں ہر شہری کی شکایت پر داد رسی خود ریاست کا ذمہ بن جاتی ہے۔ پھر خواہ وہ مفلس ونادار ہویا پیسے والا ہو۔ دونوں صورتوں میں اُسے انصاف دینا ریاست کا فرض ہوتا ہے۔



اصل میں ساری بات جرات و حق کی ہے۔
معاشرے میں وہ بے خوفی اور دردمندی کیسے لائی جائے جس کی ہمیں ضرورت ہے؟ اس سوال کا حتمی جواب میرے پاس نہیں مگرمیں نے اپنی زندگی کے تجربے سے دیکھا ہے کہ انسان میں بے خوفی حقیقی ایمان سے آتی ہے اور درد مندی حضورۖ کی سُنت پر عمل کرنے سے ، جنہوں نے ہر موقعے پر اور ہر غریب اور مفلس کے لئے مساوی انصاف فراہم کیا۔



میری خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی میں قانون کی چند قد آور شخصیتوں سے ملوا دیا جو خوف و ریا سے پاک تھے۔ ان شخصیتوں میںدرویش منش جج جسٹس اے آر کارنیلئس اور جسٹس صمدانی سرِفہرست ہیں۔ میں نے عاجزی اور انکساری کے مجسم کارنیلئس صاحب کو بہت قریب سے دیکھا اور مجھے شرف ہے انہوں نے مجھے ہی اپنی وصیت کا (Executor) نامزد کیا۔

صمدانی صاحب کی عدالت میں تو مجھے پیش ہونے کا موقع بھی ملا اور میرے خاندان کا شرف ہے کہ میری تینوں بچیوں کے نکاح اُس بزرگ اور نیک ہستی نے ہی پڑھائے۔ میں نے شعبہ ٔ قانون میں جو کچھ بھی حاصل کیا ہے یہ ان جلیل القدر اساتذہ کا حقِ شاگردی ادا کرنے کی ایک ادنیٰ سی کاوش تھی۔ اگرمجھے آج اس محفل میں کسی چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے تو وہ صرف اس بات کی کہ کاش میرے یہ معزز اساتذہ آج اِس محفل میں شریک ہوتے۔


جہاں تک وکلاء حضرات کا تعلق ہے، تو ان میں فرض شناسی پیدا کرنے کے لئے لازمی ہے کہ وکلاء کے نظامِ احتساب میں کلیدی تبدیلیاں لائی جائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسی نظام کا نتیجہ ہے کہ احتساب کی روایت کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے جب اِس معاملے کا نوٹس لیا تو معلوم ہوا کہ عوام الناس گزشتہ چند سالوں میں وکلاء کے خلاف بار کائونسلوں سے 7500 سے زائد شکایات کر چکے ہیں۔ مگر بار کائونسلوں نے ان میں سے کسی شکایت کی نہ تو کما حقہ تحقیق کی ہے اور نہ ہی کسی کو سزا وار ٹھہرایا ہے۔



اس مطالعے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وکلاء کے احتساب کے لئے منتخب بارکونسلوں کو اپنا طریقۂ کار بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ تا کہ جن فریقین مقدمہ کو وکلاء کے خلاف شکایات ہوں اُن کی داد رسی جلد اور آسان طریقے سے ہو سکے اور بد عملی میں ملوث وکلاء کے خلاف قانون کے مطابق تادیبی کارروائی ہو سکے۔ وکلاء کی اکثریت فرض شناس ہے اور نظامِ عدل میں معاونت کی خواہشمند ہے۔ اگر ہمیں پاکستان میں سستا اور فوری انصاف مہیا کرنا ہے تو وکلاء کو مستعد ہو کر اپنی صفوں میں موجود بے عملوں پر گرفت کرنی ہو گی۔



اب میں ایک اور اہم پہلو پر کچھ کہنا چاہوں گا ۔ جج اپنے منصب کے حوالے سے اُس مچھلی کی مانند ہے جو شفاف شیشے کے چلو بھر پانی میں تیرتی ہے۔ ہر دیکھنے والا اس کی طرف اشارہ کر سکتا ہے ، انگلی اٹھا سکتا ہے اور اسے بُرا بھلا بھی کہہ سکتا ہے۔ لیکن وہ مچھلی ان سب باتوں کا جواب نہیں دے سکتی۔ ججوں کے ضابطۂ اخلاق میں آرٹیکل 5 بھی شامل ہے،جس کے تحت یہ بات ضابطے کا حصہ ہے کہ وہ کھلی عدالت میں اور عوام کے سامنے اپنے فرائض کی انجام دہی کرتا ہے۔ مگر جج کے عدالت سے باہر بیانات دینے پر پابندی عائد ہے ۔ایک جج کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ عوام میں اس وقت بھی اپنی صفائی میں کچھ کہہ سکے، جب اس کے یا عدلیہ کے ادارے کے خلاف بے بنیاد اور جھوٹے بیانات جاری کیے جا رہے ہوں۔جج تنقید کے عادی ہوتے ہیں اور ان کے فیصلوں پر عوام اور میڈیا کو رائے دینے کا حق ہے۔ البتہ بعض اوقات یوں لگتا ہے جیسے رائے دینے والے نے فیصلہ یا تو پڑھا نہیں اور اگر پڑھا ہے تو پھر سمجھا نہیں۔ 
آخر میں ایک اشارہ مستقبل کی طرف۔صحت مندانسانی ذہن کا خاصہ یہ ہے کہ اُس کی سوچ ہمیشہ زیرِ ارتقاء رہتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ انسان اپنی آنکھ اور کان کھلے رکھے۔ نت نئے مشاہدات سے مستفید ہوتا رہے اور افکارِ تازہ کو قبول کرنے سے نہ گھبرائے۔ اس ضمن میں میں اپناایک تجربہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔



ہمارے آئینی قانون میں آج کل جو شق شاید سب سے زیادہ زیرِ بحث آتی ہے وہ آرٹیکل 184(3) ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کو نفاذِ انسانی حقوق اور مفادِ عامہ کی بابت اختیارِ سماعت حاصل ہے۔
اُس آٹھ سالہ عرصے میں جب کہ میں لاہور ہائی کورٹ کا جج تھا، اِس اختیار سماعت کے بارے میں میری سوچ بھی وہی تھی جو کسی روایتی سوچ کے حامل وکیل یاجج کی ہوتی ہے۔ یعنی میں انسانی حقوق اور مفادِ عامہ کے ضمن میںسپریم کورٹ میں براہِ راست دائر کردہ آئینی درخواستوں کا زیادہ پر جوش حامی نہیں تھا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کا ،جو اِس اختیارِ سماعت کے پر جوش حامی تھا، میں اُس زمانے میں اُن کے طرزِ عمل کا ناقد تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ درخواستیں عدالت کی توجہ عام مقدموں سے پرے کرتی ہیںاور اس طرح عدالت کے معمول کے کاموں میں دخل انداز ہوتی ہیں۔ میرامزید یہ خیال تھا کہ اِس اختیارِ سماعت میں قواعد و ضوابط نہ ہونے کے برابرہیں اوریوں جج صاحبان کی ذاتی ترجیحات کو ضرورت سے زیادہ دخل ہے اسی لئے اس سے گریز ہی بہتر ہے۔



یہ بات بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اُس وقت میں نہ صرف سابق چیف جسٹس کی طرزِ عمل کا ناقد تھا بلکہ ذاتی طور پر اُن سے واقف نہیںتھا۔اگر اُن سے میری ملاقات ہو جاتی تو میں تو ضرور اُنہیں پہچان لیتا لیکن وہ شاید مجھے نہ پہچان پاتے کیونکہ اپریل 2007ء سے پہلے میں اُنہیں کبھی نہیں ملا تھا۔ میں نے مارچ 2007 میں جب عدالتِ عالیہ لاہور کو خیر باد کہا تو اس کا سبب صرف یہ تھا کہ اِس عدالت کی ساکھ اور وقار پر ایسا غیر آئینی حملہ کیا گیا تھا جو عدلیہ کے سربراہ کے ساتھ تحقیر آمیز سلوک کی شکل میں سامنے آیا اور یہ میری برداشت سے باہر تھا۔



خیر قصہ مختصر یہ کہ جب 2009 میں ، اس عدالت کا رکن بنا اور مجھے آرٹیکل 184(3) کے تحت آنے والی درخواستوں اور سادہ کاغذ پر لکھی ہوئی چٹھیوں کو پڑھنے اور اُن پر مبنی مقدمات کوبذاتِ خود سُننے کا موقع ملا، تب میری سوچ میں نمایاں تبدیلی آئی۔ جب میں نے یکے بعد دیگرے ایسے مقدمات کی سماعت کی جہاں ایک طرف معاشرے کے کمزور ترین اور پسے ہوئے طبقات جبر اور محرومی کا پیکر بنے کھڑے تھے اور دوسری طرف ریاست کے اعلیٰ ترین نمائندے کھڑے تھے جو اپنے فرائض کی ادائیگی سے منکر تھے اور اپنی نا انصافیوں کادفاع کر رہے تھے۔تب میرے ذہن میں یہ سوال اُٹھا کہ اگر ہم اِس اعلیٰ ترین عدالت میں بیٹھ کر اِن محروموں کی داد رسی نہ کریں تو یہ طبقہ بالکل بے سروسامان اور انصاف سے محروم رہ جائے گا۔ ایسا کرنا آرٹیکل 184(3) کے تحت دئیے گئے اختیارات سے دست کشی کے مترادف ہو گا۔



معروضی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے بہت سے بے نوا اور غریب طبقے موجود ہیں جو عام قانونی نظام کے ذریعے سستا اور فوری انصاف حاصل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہ ہمارے نظام کی بد قسمتی ہے۔ مگر یہ عدالت 184(3) کے تحت اُن محروموں کے دکھوں کا کچھ تو مداوا کر سکتی ہے۔ پھر میں نے کئی مقدمات میں اپنی آنکھوں سے ایسا ہوتے دیکھا۔ ایک مقدمے میں اِس عدالت کے ایک فیصلہ سے ملک کے ہر کونے میں مقیم لاکھوں لیڈی ہیلتھ ورکروں کو اُن کے جائز حقوق ملے۔ ایک مقدمے میں ملک کے ہر سرکاری ملازم کے حقوق کا اعادہ کیا گیا اور ایک میں اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ ایسی اختیارِ سماعت کے تحت پتھر کوٹنے والے ہزاروں مزدوروں اور کچی آبادیوں میں بسنے والے لاکھوں ناداروں کو اُن کے حقوق دلانے کی طرف پیش قدمی بھی شروع ہوئی 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں