They are 100% FREE.

بدھ، 15 اگست، 2018

چوہدری نثار نے پانامہ جے آئی ٹی میں حساس اداروں کے نمائندے شامل کروانے کے دعوے کی تردید کردی


میرا یاوزارت داخلہ کاجے آئی ٹی کی تشکیل میں کوئی کردار نہیں تھا، جے آئی ٹی اعلیٰ عدلیہ کے تین رکنی بینچ کے حکم کے تحت تشکیل دی گئی، رجسٹرار سپریم کورٹ نے ازخود ایف آئی اے،ایس ای سی پی ، نیب سے 3،3نام مانگے تھے

: سابق وزیر داخلہ

 چوہدری نثار نے پانامہ جے آئی ٹی میں حساس اداروں کے نمائندے شامل کروانے کے دعوے کی تردید کردی، میرا یاوزارت داخلہ کاجے آئی ٹی کی تشکیل میں کوئی کردار نہیں تھا، جے آئی ٹی اعلیٰ عدلیہ کے تین رکنی بینچ کے حکم کے تحت تشکیل دی گئی، رجسٹرارسپریم کورٹ نےازخودایف آئی اے،،ایس ای سی پی ، نیب سے 3،3نام مانگے تھے: سابق وزیر داخلہ۔
تفصیلات کے مطابق بدھ کے روز سپریم کورٹ میں منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی میں خفیہ اداروں کے افسران چودھری نثارنے شامل کئے، عدالتی حکم پرخفیہ اداروں کے افسران کو جے آئی ٹی میں شامل نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں بنچ نے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کی ،اومنی گروپ کے چیئرمین بیٹوں سمیت عدالت میں پیش ہوئے عدالتنے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔
اس دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کی جے آئی ٹی میں خفیہ اداروں کے افسران چودھری نثارنے شامل کئے ،عدالتی حکم پرخفیہ اداروں کے افسران کوجے آئی ٹی میں شامل نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ خفیہ اداروں کے افسران کواس وقت کے وزیرداخلہ چودھری نثارنے شامل کیا۔ اس حوالے سے اب سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کی جانب سے بھی ردعمل دیا گیا ہے۔
چوہدری نثار نے چیف جسٹس کے ریمارکس کی تردید کردی ہے۔ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ میرا یاوزارت داخلہ کاجے آئی ٹی کی تشکیل میں کوئی کردار نہیں تھا۔ جے آئی ٹی اعلیٰ عدلیہ کے تین رکنی بینچ کے حکم کے تحت تشکیل دی گئی تھی۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے ازخود ایف آئی اے،،ایس ای سی پی ، نیب سے 3،3نام مانگے تھے۔ میرا یا وزارت داخلہ کا فوجی افسران کی شمولیت سے متعلق کوئی عمل دخل نہ تھا۔ آئی ایس آئی ، ایم آئی سے بھی رجسٹرارسپریم کورٹ نے خود ہی رابطہ قائم کیا تھا۔ تمام عمل میں کسی وزارت یا حکومتی شخصیت کو شامل نہیں کیا گیا۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں