جارج فلوئیڈ کے ساتھ پولیس کی اس بربریت کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوئی تو لوگ ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے اوراحتجاج شروع کر دیا۔ احتجاج کے منتظمین نے مظاہرین کو پرامن رکھنے اور کورونا وائرس کے باعث سماجی میل جول میں فاصلے کی پابندی پر عمل کرانے کی کوشش کی لیکن معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور مظاہرین نے پولیس سٹیشنز اور پولیس کی گشت کرتی گاڑیوں پر حملے شروع کر دیئے۔ اب تک مظاہرین تین پولیس سٹیشنز کو آگ لگا چکے ہیں اور پولیس کی متعدد گاڑیوں کو نقصان پہنچا چکے ہیں۔اب ان مظاہروں کا دائرہ منیسوٹا سے نکل کر دیگر کئی ریاستوں تک پھیل چکا ہے اور جگہ جگہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کی خبریں آ رہی ہیں۔ پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کر رہی ہے جبکہ مظاہرین کی طرف سے پولیس پر پتھراﺅ کیا جا رہا ہے۔ اب تک ان مظاہروں میں درجنوں افراد زخمی ہو چکے ہیں اور 70سے زائد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
جارج فلوئیڈ کی موت پر منی پولیس کے میئر کا کہنا تھا کہ ”جو ہوا بہت غلط ہوا۔ امریکہ میں سیاہ فام ہونے کا مطلب موت کی سزا نہیں ہونا چاہیے۔“ مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے ایرک گارنر کی یاد تازہ ہو گئی ہے جسے اسی طرح 2014ءمیں پولیس نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ایرک کی موت کے بعد ’بلیک لائف میٹرز‘ یعنی سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی اہمیت رکھتی ہے کے نام سے ایک تحریک شروع ہوئی تھی۔ مقامی انتظامیہ نے جارج فلوئیڈ کے قتل میں ملوث چار پولیس آفیسرز کو نوکری سے نکال دیا ہے اور مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں تاہم صدر ٹرمپ اس معاملے میں شہر کے میئر پر برس پڑے ہیں اور دھمکی دے دی ہے کہ اگر انہوں نے حالات کنٹرول نہ کیے تو وہ نیشنل گارڈ بھیج کر شہر کا کنٹرول خود سنبھال لیں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں