They are 100% FREE.

جمعہ، 29 مئی، 2020

امریکہ میں ہنگامے پھوٹ پڑے، ایک شخص کی موت نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا، ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی ہوائیاں اُڑ گئیں

امریکہ میں ہنگامے پھوٹ پڑے، ایک شخص کی موت نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا، ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی ہوائیاں اُڑ گئیں
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) امریکہ میں لاکھوں جانیں گنوا کر سیاہ فام باشندوں کو آزادی تو مل گئی لیکن اب بھی وہاں سیاہ فاموں کے خلاف منافرت کے ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔ گزشتہ دنوں بھی ایک ایسا ہی انسانیت سوز واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے اب پورے امریکہ میں آگ لگی ہوئی ہے۔میل آن لائن کے مطابق یہ واقعہ امریکی ریاست منیسوٹا کے شہر منیپولیس میں پیش آیا جہاں پولیس کی حراست میں ایک سیاہ فام شہری کی موت واقع ہو گئی۔اس بدقسمت 46سالہ سیاہ فام شہری کا نام جارج فلوئیڈ تھا جسے پولیس آفیسرز نے ایک ہوٹل کے باہر سے گرفتار کیا۔ اس ہتھکڑیاں لگا کر زمین پر اوندھے منہ گرا دیا گیا اور ایک سفید فام پولیس آفیسر نے اس کی گردن پر گھٹنا رکھ دیا جس سے اس کا سانس بند ہو گیا۔ پاس موجود لوگوں میں سے کسی نے اس واقعے کی ایک ویڈیو بناڈالی۔ ویڈیو میں جارج فلوئیڈ پولیس آفیسر سے کہہ رہا ہے کہ ”مجھے سانس نہیں آ رہا۔۔۔ مجھے مت مارو۔“ پاس موجود لوگ بھی پولیس آفیسر سے کہتے ہیں کہ وہ حرکت نہیں کر رہا، اس کی گردن سے گھٹنا ہٹا لو لیکن آفیسر بدستور گھنٹے سے جارج کی گردن کو دبائے رکھتا ہے جس سے وہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔
بے ہوشی کی حالت میں ہی جارج کو سٹریچرپر اٹھا کر ایمبولینس میں ڈالا جاتا ہے اور ہسپتال منتقل کیا جاتا ہے لیکن تب تک اس کی موت واقع ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ قضیہ کچھ اس طرح شروع ہوا تھا کہ جارج فلوئیڈ نے مبینہ طور پر20ڈالر کا جعلی نوٹ مذکورہ ہوٹل پر چلانے کی کوشش کی تھی جس پر ہوٹل انتظامیہ نے پولیس کو اطلاع دے دی۔ پولیس آئی تو جارج ہوٹل کے سامنے ہی اپنی گاڑی پر بیٹھا ہوا تھا جہاں سے پولیس نے اسے حراست میں لے لیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ آپ سن چکے ہیں۔

جارج فلوئیڈ کے ساتھ پولیس کی اس بربریت کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوئی تو لوگ ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے اوراحتجاج شروع کر دیا۔ احتجاج کے منتظمین نے مظاہرین کو پرامن رکھنے اور کورونا وائرس کے باعث سماجی میل جول میں فاصلے کی پابندی پر عمل کرانے کی کوشش کی لیکن معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور مظاہرین نے پولیس سٹیشنز اور پولیس کی گشت کرتی گاڑیوں پر حملے شروع کر دیئے۔ اب تک مظاہرین تین پولیس سٹیشنز کو آگ لگا چکے ہیں اور پولیس کی متعدد گاڑیوں کو نقصان پہنچا چکے ہیں۔اب ان مظاہروں کا دائرہ منیسوٹا سے نکل کر دیگر کئی ریاستوں تک پھیل چکا ہے اور جگہ جگہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کی خبریں آ رہی ہیں۔ پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کر رہی ہے جبکہ مظاہرین کی طرف سے پولیس پر پتھراﺅ کیا جا رہا ہے۔ اب تک ان مظاہروں میں درجنوں افراد زخمی ہو چکے ہیں اور 70سے زائد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

جارج فلوئیڈ کی موت پر منی پولیس کے میئر کا کہنا تھا کہ ”جو ہوا بہت غلط ہوا۔ امریکہ میں سیاہ فام ہونے کا مطلب موت کی سزا نہیں ہونا چاہیے۔“ مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے ایرک گارنر کی یاد تازہ ہو گئی ہے جسے اسی طرح 2014ءمیں پولیس نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ایرک کی موت کے بعد ’بلیک لائف میٹرز‘ یعنی سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی اہمیت رکھتی ہے کے نام سے ایک تحریک شروع ہوئی تھی۔ مقامی انتظامیہ نے جارج فلوئیڈ کے قتل میں ملوث چار پولیس آفیسرز کو نوکری سے نکال دیا ہے اور مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں تاہم صدر ٹرمپ اس معاملے میں شہر کے میئر پر برس پڑے ہیں اور دھمکی دے دی ہے کہ اگر انہوں نے حالات کنٹرول نہ کیے تو وہ نیشنل گارڈ بھیج کر شہر کا کنٹرول خود سنبھال لیں گے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں