They are 100% FREE.

اتوار، 8 اپریل، 2018

پنجاب حکومت کی کارکردگی بدترین ملک میں بادشاہت نہیں کروڑوں کی بندر بانٹ نہیں کرنے دیں گے شہبازشریف کو بلا لیتے ہیں چیف جسٹس

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اسپتال کے فضلے سے متعلق کیس کی سماعت میں پنجاب حکومت کی کارکردگی کو بدترین قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پوری قوم کو بیمار کرکے رکھ دیا۔ ہفتہ کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہاسپیٹل ویسٹ سے متعلق کیس کی سماعت میں صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالتی کمیشن نے بتایا کہ ہماری چیکنگ کے دوران معلوم ہوا کہ کئی ہسپتالوں میں مکمل ڈاکٹر ہی نہیں ہیں، فضلے کو تلف کرنے والی مشین انسنیریٹر کی چیکنگ کے دوران ہمین لکڑی کی راکھ دکھائی گئی جو ہاسپیٹل ویسٹ کی نہ تھی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے سلمان رفیق، چیف سیکرٹری اور سیکرٹری صحت پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب آپ اگر محکمہ صحت کو سنبھال نہیں سکتے تو چھوڑ دیں، پنجاب میں گائنی کی سیٹ پر کوئی اور ڈاکٹر لگا دیا جاتا ہے، دس دس لاکھ پر لوگ رکھ لیے ہیں، ایک وزیر کے پرسنل سیکرٹری کو بھی تین لاکھ میں لگا دیا، محکمہ صحت پنجاب مکمل فلاپ ہو گیا اس کا توککھ بھی نہیں رہا، سفارش پر لوگوں کو بھرتی کیا جا رہا ہے، کیا کام کر رہے ہیں، کس کھاتے میں ایسے لوگوں کو لاکھوں روپے تنخواہ پر رکھا ہوا ہے، خواجہ سلمان رفیق صاحب آپ وزیراعلیٰ سے بات کریں گے یا ہم بلا لیں، ملک میں بادشاہت نہیں ہے۔ خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ اگر آپ ناراض ہوں گے تو کیسے صورتحال بتا پاؤں گا، یہ میری بھی عدالت ہے، پنجاب حکومت نے جو اچھے کام کیے ہیں آپ انکی تعریف بھی کریں، آپ کے ہسپتالوں کے دورے کرنے سے ہماری حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب حکومت کی کوئی تعریف نہیں کرنی، آپ کے مہربان تو کہتے ہیں کہ ہمیں اسپتال جانے کی بجائے کوئی اور کام کرنا چاہیے، میں اور کام بھی کر رہا ہوں اور آپ کی حکومت کو بھی دیکھ رہا ہوں، آپ لوگوں کی صحت سے کھیل رہے ہیں، ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے علاوہ آپ کا کوئی کام نہیں، وزیر آباد کا ہسپتال اس لیے بند رہا کہ وہ پرویز الٰہی کا پراجیکٹ تھا، کل وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو بلا لیتا ہوں اور پھر ان کی کارگردگی کا جائزہ لیتے ہیں، آپ نے پوری قوم کو بیمار کر کے رکھ دیا ہے، پنجاب حکومت کی کارکردگی بد ترین ہے، اربوں روپے لگا دیے، لیکن نہ سرکاری ہسپتالوں کی حالت بدلی اور نہ لوگوں کا علاج ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ جانتے ہیں ریلوے کے لاسسز کتنے ہیں۔ ریلوے افسر نے عدالت میں کھڑے ہو کر بتایا لاسسز 60 ارب ہیں۔ دوران سماعت ایک خاتون نے پنجاب حکومت پر تنقید کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ان کے خلاف نہ بولیں، انکی حکومت کے خلاف بولنا ایسا ہی ہے جیسے اپنے گلے میں پھندا ڈالنا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے محکمہ ریلوے میں کرپشن کے الزامات پر وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کو طلب کرلیا اور حکم دیا کہ اگلی سماعت پر ریلوے میں کرپشن اور خسارے کے حوالے سے ریکارڈ پیش کیا جائے۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت استفسار کیا کہ ریلوے کے لاسسز کتنے ہیں۔ کمرہ عدالت میں موجود ایک ریلوے افسر نے کھڑے ہو کر بتایا کہ لاسسز 60 ارب ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ افسران آئندہ سماعت پر پیش ہو کر 60 ارب روپے کے نقصان کی وجوہات بتائیں، بھارت کا وزیر ریلوے لالو پرشاد ان پڑھ آدمی تھا، لیکن ادارے کو منافع بخش بنایا، ہمارے ہاں صرف جلسوں میں ریلوے کے منافع بخش ہونے کے دعوے کیے جاتے ہیں، ریلوے کی اصل صورتحال مختلف ہے۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے صاف پانی کمپنی ازخود نوٹس کیس کی سماعت پر صاف پانی کمپنی کے تمام ملازمین و افسران کی تنخواہوں اور مراعات کی تفصیلات طلب کر لیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان کو بنے 70 سال ہو گئے اور آپ میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ کمپنی کو چلا سکے، صاف پانی کمپنی میں غیر ملکی کنسلٹنٹس کی کیا ضرورت پڑ گئی، یہ کیا کرتے ہیں، کیا ہمارا ٹیلنٹ ختم ہو گیا جو کنسلٹنٹس رکھے گئے۔ مزید برآں چیف جسٹس ثاقب نثار نے شلوار قمیص پہنے ڈاکٹر کے آپریشن کا نوٹس لے لیا۔ چیف جسٹس نے وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق کو تصویر دکھانے کے لیے اپنا موبائل دے دیا۔ خواجہ سلمان رفیق نے بتایا کہ یہ میرے ماتحت نہیں ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ تو پھر آپ کس چیز کے وزیر ہیں ؟ ۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس نے یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی میرٹ سے ہٹ کر تعیناتیوں پر بھی ازخود نوٹس لے لیا۔ وائس چانسلرز کی تقرریوں کا مکمل ریکارڈ پیش کرنے کا حکم جاری کردیا۔ دریں اثنا سپریم کورٹ نے سمبڑیال میں صحافی ذیشان بٹ کے قتل سے متعلق از خود نوٹس کیس میں ملزمان کو 4 دن میں گرفتار کرنے کا حکم د یدیا،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملز مان ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ہوئے، آسمان نگل گیا یا زمین کھا گئی، بتائیں کہ ملزمان کا تعلق کس پارٹی سے ہے اور انہیں کس کی حمایت حاصل ہے،کیا یہ کم ہے کہ قاتلوں کا تعلق(ن)لیگ سے ہے؟ آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان اب تک گرفتار نہیں کئے جاسکے تاہم ایک ہفتے میں انہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔عدالتی استفسار پر آئی جی پنجاب نے بتایا کہ ملزمان کا تعلق(ن)لیگ سے ہے لیکن انہیں کسی کی بھی سپورٹ نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ملزمان کا تعلق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن)سے ہے کیا یہ کم ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ملزمان کے نام ای سی ایل میں ڈال دیں، جس پر آئی جی پنجاب نے بتایا کہ ملزمان کے نام ای سی ایل میں ڈال دئیے گئے ہیں۔ عدالت نے آئی جی پنجاب عارف نواز کی ایک ہفتے کی مہلت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری کیلئے چار دن کی مہلت دے دی۔ مزید برآں چیف جسٹس مختلف مقدمات اور از خود نوٹسز کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری پہنچے تو اس موقع پر انہوں نے عدالت کے باہر اورنج لائن ٹرین منصوبے کا جائزہ بھی لیا۔ چیف جسٹس گاڑی سے اتر کر سپریم کورٹ رجسٹری کے باہر آگئے اور انہوں نے زیرزمین سڑک کے زیر تعمیر حصہ پر کام کا جائزہ لیا۔ بعد ازاں سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے تھے کہ اگر پنجاب میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کام نہ ہوا تو اورنج لائن سمیت تمام پراجیکٹ روک دوں گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں